عبداللہ بن عباس کی مرویات
حَدَّثَنَا يُونُسُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَرَأَيْتَ رَجُلًا قَتَلَ مُؤْمِنًا قَالَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ جَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا إِلَى آخِرِ الْآيَةِ قَالَ فَقَالَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَرَأَيْتَ إِنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا قَالَ ثَكِلَتْهُ أُمُّهُ وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْمَقْتُولَ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُتَعَلِّقًا رَأْسَهُ بِيَمِينِهِ أَوْ قَالَ بِشِمَالِهِ آخِذًا صَاحِبَهُ بِيَدِهِ الْأُخْرَى تَشْخَبُ أَوْدَاجُهُ دَمًا فِي قُبُلِ عَرْشِ الرَّحْمَنِ فَيَقُولُ رَبِّ سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي
حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا اے ابن عباس! اس آدمی کے متعلق بتائیے جس نے کسی مسلمان کو عمدا قتل کیا ہو؟ انہوں نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت نازل ہوگی اور اللہ نے اس کے لئے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے، سائل نے پوچھا کہ اگر وہ توبہ کر کے ایمان لے آیا، نیک اعمال کئے اور راہ ہدایت پر گامزن رہا؟ فرمایا تم پر افسوس ہے، اسے کہاں توبہ کی توفیق ملے گی؟ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مقتول کو اس حال میں لایا جائے گا کہ اس نے ایک ہاتھ سے قاتل کو پکڑ رکھا ہوگا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے سر کو اور اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہوگا ، اور وہ عرش کے سامنے آکر کہے گا کہ پروردگار! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا تھا ؟
فائدہ : یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے ہے، جمہور امت اس بات پر متفق ہیں کہ قاتل اگر توبہ کرنے کئے بعد ایمان اور عمل صالح سے اپنے آپ کو مزین کر لے تو اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے، حقوق العباد کی ادائیگی یا سزا کی صورت میں بھی بہرحال کلمہ کی برکت سے وہ جہنم سے نجات پائے گا۔
