عبداللہ بن عباس کی مرویات
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ مَرْوَانَ قَالَ اذْهَبْ يَا رَافِعُ لِبَوَّابِهِ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْ لَئِنْ كَانَ كُلُّ امْرِئٍ مِنَّا فَرِحَ بِمَا أُوتِيَ وَأَحَبَّ أَنْ يُحْمَدَ بِمَا لَمْ يَفْعَلْ لَنُعَذَّبَنَّ أَجْمَعُونَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمَا لَكُمْ وَهَذِهِ إِنَّمَا نَزَلَتْ هَذِهِ فِي أَهْلِ الْكِتَابِ ثُمَّ تَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ هَذِهِ الْآيَةَ وَتَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَأَلَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ فَكَتَمُوهُ إِيَّاهُ وَأَخْبَرُوهُ بِغَيْرِهِ فَخَرَجُوا قَدْ أَرَوْهُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوهُ بِمَا سَأَلَهُمْ عَنْهُ وَاسْتَحْمَدُوا بِذَلِكَ إِلَيْهِ وَفَرِحُوا بِمَا أَتَوْا مِنْ كِتْمَانِهِمْ إِيَّاهُ مَا سَأَلَهُمْ عَنْهُ
ایک مرتبہ مروان نے اپنے دربان سے کہا اے رافع! حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ اگر ہم میں سے ہر شخص کو جو خود کو ملنے والی نعمتوں پر خوش ہو اور یہ چاہے کہ جو کام اس نے نہیں کیا اس پر بھی اس کی تعریف کی جائے، عذاب ہوگا تو پھر ہم سب ہی عذاب میں مبتلا ہوں گے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ تمہارا اس آیت سے کیا تعلق؟ اس آیت کا نزول تو اہل کتاب کے متعلق ہوا ہے، پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی، کہ اس وقت کو یاد کیجئے جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ وعدہ لیا تھا کہ تم اس کتاب کو لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرو گے، پھر یہ آیت تلاوت کی کہ جو لوگ خود کو ملنے والی نعمتوں پر اتراتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کئے ، ان پر بھی ان کی تعریف کی جائے، ان کے متعلق آپ یہ گمان نہ کریں ۔ اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اہل کتاب سے کوئی بات پوچھی تھی لیکن انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے چھپایا اور دوسروں کو بتا دیا، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے نکلے تو ان کا خیال یہ تھا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا جواب دے دیا ہے اور اس پر وہ داد چاہتے تھے اور اس بات پر اترا رہے تھے کہ انہوں نے بڑی احتیاط سے اس بات کو چھپا لیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھی تھی۔
