حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مرویات
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ عَنْ مِقْسَمٍ أَبِي الْقَاسِمِ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ قَالَ خَرَجْتُ أَنَا وَتَلِيدُ بْنُ كِلَابٍ اللَّيْثِيُّ حَتَّى أَتَيْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ مُعَلِّقًا نَعْلَيْهِ بِيَدِهِ فَقُلْنَا لَهُ هَلْ حَضَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يُكَلِّمُهُ التَّمِيمِيُّ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ نَعَمْ أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ يُقَالُ لَهُ ذُو الْخُوَيْصِرَةِ فَوَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُعْطِي النَّاسَ قَالَ يَا مُحَمَّدُ قَدْ رَأَيْتَ مَا صَنَعْتَ فِي هَذَا الْيَوْمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجَلْ فَكَيْفَ رَأَيْتَ قَالَ لَمْ أَرَكَ عَدَلْتَ قَالَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ وَيْحَكَ إِنْ لَمْ يَكُنْ الْعَدْلُ عِنْدِي فَعِنْدَ مَنْ يَكُونُ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَقْتُلُهُ قَالَ لَا دَعُوهُ فَإِنَّهُ سَيَكُونُ لَهُ شِيعَةٌ يَتَعَمَّقُونَ فِي الدِّينِ حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهُ كَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ يُنْظَرُ فِي النَّصْلِ فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ ثُمَّ فِي الْقِدْحِ فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ ثُمَّ فِي الْفُوقِ فَلَا يُوجَدُ شَيْءٌ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ أَبُو عُبَيْدَةَ هَذَا اسْمُهُ مُحَمَّدٌ ثِقَةٌ وَأَخُوهُ سَلَمَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ لَمْ يَرْوِ عَنْهُ إِلَّا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ وَلَا نَعْلَمُ خَبَرَهُ وَمِقْسَمٌ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ وَلِهَذَا الْحَدِيثِ طُرُقٌ فِي هَذَا الْمَعْنَى وَطُرُقٌ أُخَرُ فِي هَذَا الْمَعْنَى صِحَاحٌ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ
مقسم کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ تلید بن کلاب لیثی کے ساتھ نکلاہم لوگ حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے وہ اس وقت ہاتھوں میں جوتے لٹکائے بیت اللہ کا طواف کررہے تھے ہم نے ان سے پوچھا کہ غزوہ حنین کے موقع پر جس وقت بنوتمیم کے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تھی کیا آپ وہاں موجود تھے ؟ انہوں نے فرمایا ہاں بنوتمیم کا ایک آدمی جسے ذوالخولصیرہ کہا جاتا ہے آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے وہ کہنے لگا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آج میں نے آپ کو مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے دیکھ لیاہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تمہیں کیسا لگا؟ اس نے کہا کہ میں نے آپ کو عدل سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور فرمایا تجھ پر افسوس! اگر میرے پاس ہی عدل نہ ہوگا تو اور کس کے پاس ہو گا؟
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم اسے قتل نہ کردیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اسے چھوڑ دوعنقریب اس کے گروہ کے کچھ لوگ ہوں گے جوتعمق فی الدین کی راہ اختیار کریں گے، وہ لوگ دین سے سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے تیر کے پھل کو دیکھا جائے تو اس پر کچھ نظر نہ آئے دستے پر دیکھاجائے تو وہاں کچھ نظر نہ آئے اور سوار پر دیکھا جائے تو وہاں کچھ نظر نہ آئے بلکہ وہ تیر لید اور خون پر سبقت لے جائے۔
