حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مرویات
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ قَالَ كَتَبْتُ إِلَى نَافِعٍ أَسْأَلُهُ مَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ الْغَزْوِ أَوْ عَنْ الْقَوْمِ إِذَا غَزَوْا بِمَا يَدْعُونَ الْعَدُوَّ قَبْلَ أَنْ يُقَاتِلُوهُمْ وَهَلْ يَحْمِلُ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ فِي الْكَتِيبَةِ بِغَيْرِ إِذْنِ إِمَامِهِ فَكَتَبَ إِلَيَّ إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَدْ كَانَ يَغْزُو وَلَدُهُ وَيَحْمِلُ عَلَى الظَّهْرِ وَكَانَ يَقُولُ إِنَّ أَفْضَلَ الْعَمَلِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى وَمَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ الْغَزْوِ إِلَّا وَصَايَا لِعُمَرَ وَصِبْيَانٌ صِغَارٌ وَضَيْعَةٌ كَثِيرَةٌ وَقَدْ أَغَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ وَهُمْ غَارُّونَ يَسْقُونَ عَلَى نَعَمِهِمْ فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَهُمْ وَسَبَى سَبَايَاهُمْ وَأَصَابَ جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ قَالَ فَحَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ ابْنُ عُمَرَ وَكَانَ فِي ذَلِكَ الْجَيْشِ وَإِنَّمَا كَانُوا يُدْعَوْنَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ وَأَمَّا الرَّجُلُ فَلَا يَحْمِلُ عَلَى الْكَتِيبَةِ إِلَّا بِإِذْنِ إِمَامِهِ
ابن عون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے خط لکھ کر حضرت نافع رحمتہ اللہ علیہ سے یہ سوال پوچھا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جہاد میں شرکت کیوں چھوڑ دی ہے جبکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے وہ اس کی دعاء کرتے تھے اور کیا کوئی شخص اپنے امیر کی اجازت کے بغیر لشکر پر حملہ کرسکتا ہے؟ انہوں نے مجھے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما تو ہر جہاد میں شریک ہوئے ہیں اور جانور کی پشت پر سوار رہے ہیں اور وہ تو خود فرماتے تھے کہ نماز کے بعدسب سے افضل عمل جہادفی سبیل اللہ ہے اب حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا جہاد میں شریک نہ ہونا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کچھ وصیتوں کو پورا کرنے میں مصروفیت چھوٹے بچوں اور زیادہ زمینوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق پر اس وقت حملہ کیا تھا جبکہ وہ غافل تھے اور اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنگجو افراد کو قتل کروا دیا ان کی عورتوں کو قیدی بنالیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں حضرت جویرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آگئیں ۔ یہ حدیث مجھے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتائی ہے جو کہ اس لشکر میں شریک تھے اور وہ لوگ پہلے اسلام کی دعوت دیتے تھے باقی کوئی شخص اپنے امیر کی اجازت کے بغیر کسی لشکر پر حملہ نہیں کرسکتا۔
