مسند احمد ۔ جلد سوم ۔ حدیث 678

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مرویات

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ أَفِي أَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ أَوْ مُبْتَدَإٍ أَوْ مُبْتَدَعٍ قَالَ فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ فَاعْمَلْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ فَإِنَّ كُلًّا مُيَسَّرٌ أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا نہیں بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے لہٰذا اے ابن خطاب! عمل کرتے رہو کیونکہ جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اسے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کردیا جاتا ہے چنانچہ اگر وہ اہل سعادت میں سے ہو تو وہ سعادت والے اعمال کرتا ہے اور اہل شقاوت میں سے ہو تو بدبختی والے اعمال کرتا ہے۔
فائدہ۔ اس حدیث کا تعلق مسئلہ تقدیر سے ہے اس کی مکمل وضاحت کے لئے ہماری کتاب" الطریق" الاسلم الی شرح مسندالامام اعظم " کا مطالعہ کیجئے۔

یہ حدیث شیئر کریں