حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مرویات
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ بَلَى ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ فَقُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ فَذَهَبَ لِيَنُوءَ فَغُشِيَ عَلَيْهِ قَالَتْ وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ بِأَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا رَقِيقًا فَقَالَ يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَ أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ خِفَّةً فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ وَأَمَرَهُمَا فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِهِ فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا فَدَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هَاتِ فَحَدَّثْتُهُ فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ هَلْ سَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ قُلْتُ لَا قَالَ هُوَ عَلِيٌّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کے بارے کچھ بتائیں گی؟ فرمایا کیوں نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت جب بوجھل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے کہا نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے ایک ٹب میں پانی رکھو، ہم نے ایسے ہی کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور جانے کے لئے کھڑے ہونے ہی لگے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہو گئی جب افاقہ ہوا تو پھر یہی سوال پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے حسب سابق وہی جواب دیا اور تین مرتبہ اسی طرح ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ نماز عشاء کے لئے مسجد میں بیٹھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھادیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے رقیق القلب آدمی تھے کہنے لگے اے عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں انہوں نے کہا اس کے حقدار تو آپ ہی ہیں چنانچہ ان دونوں میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مرض میں کچھ تخفیف محسوس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کے وقت دو آدمیوں کے درمیان نکلے جن میں سے ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹیں اور اپنے ساتھ آنے والے دونوں صاحبوں کو حکم دیا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھادیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔
عبیداللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سماعت کے بعد ایک مرتبہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا ہوا تھا میں نے ان سے کہا کہ کیا میں آپ کے سامنے وہ حدیث پیش کروں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض والوفات کے حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے سنائی ہے؟ انہوں نے کہا ضرور بیان کرو چنانچہ میں نے ان سے ساری حدیث بیان کردی انہوں نے اس کے کسی حصے پر نکیر نہیں فرمائی البتہ اتنا ضرور پوچھا کہ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو اس آدمی کا نام بتایا جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا؟ میں نے کہا نہیں ، انہوں نے فرمایا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اللہ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں ۔
