مسند احمد ۔ جلد ششم ۔ حدیث 818

حضرت جابر انصاری کی مرویات۔

حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي الزُّبَيْرِيَّ حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ يَعْنِي ابْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ الْجَزَرِيَّ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَّاجًا لَا نُرِيدُ إِلَّا الْحَجَّ وَلَا نَنْوِي غَيْرَهُ حَتَّى إِذَا بَلَغْنَا سَرِفَ حَاضَتْ عَائِشَةُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ تَبْكِي فَقَالَ مَا لَكِ تَبْكِينَ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَابَنِي الْأَذَى قَالَ إِنَّمَا أَنْتِ مِنْ بَنَاتِ آدَمَ يُصِيبُكِ مَا يُصِيبُهُنَّ قَالَ وَقَدِمْنَا الْكَعْبَةَ فِي أَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ أَيَّامًا أَوْ لَيَالِيَ فَطُفْنَا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنَا فَأَحْلَلْنَا الْإِحْلَالَ كُلَّهُ قَالَ فَتَذَاكَرْنَا بَيْنَنَا فَقُلْنَا خَرَجْنَا حُجَّاجًا لَا نُرِيدُ إِلَّا الْحَجَّ وَلَا نَنْوِي غَيْرَهُ حَتَّى إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَاتٍ إِلَّا أَرْبَعَةُ أَيَّامٍ أَوْ لَيَالٍ خَرَجْنَا إِلَى عَرَفَاتٍ وَمَذَاكِيرُنَا تَقْطُرُ الْمَنِيَّ مِنْ النِّسَاءِ قَالَ فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ خَطِيبًا فَقَالَ أَلَا إِنَّ الْعُمْرَةَ قَدْ دَخَلَتْ فِي الْحَجِّ وَلَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْهَدْيَ وَلَوْلَا الْهَدْيُ لَأَحْلَلْتُ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ خَبِّرْنَا خَبَرَ قَوْمٍ كَأَنَّمَا وُلِدُوا الْيَوْمَ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِلْأَبَدِ قَالَ لَا بَلْ لِلْأَبَدِ قَالَ فَأَتَيْنَا عَرَفَاتٍ وَانْصَرَفْنَا مِنْهَا ثُمَّ إِنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي قَدْ اعْتَمَرُوا قَالَ إِنَّ لَكِ مِثْلَ مَا لَهُمْ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي فَوَقَفَ بِأَعْلَى وَادِي مَكَّةَ وَأَمَرَ أَخَاهَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَأَرْدَفَهَا حَتَّى بَلَغَتْ التَّنْعِيمَ ثُمَّ أَقْبَلَتْ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے روانہ ہوئے حج کے علاوہ ہمارا کوئی ارادہ نہ تھا مقام سرف میں پہنچے تو حضرت عائشہ کو ایام آگئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے تو وہ رو رہی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگی کہ میں اس بات پر رو رہی ہوں کہ مجھے ایام شروع ہو گئے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ توایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی ساری بیٹیوں کے لئے لکھ دی ہے۔ہم لوگ چار ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مکمل حلال ہوگئے کچھ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو صرف حج کے ارادے سے نکلے تھے حج کے علاوہ ہمارا کوئی ارادہ نہ تھا جب ہمارے اور عرفات کے درمیان چار دن رہ گئے تو یہ حکم آگیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم عرفات کی طرف روانہ ہوں تو ہماری شرمگاہوں سے ناپاک قطرات ٹپک رہے ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے اگر میرے سامنے وہ بات پہلے ہی آجاتی جو بعد میں آئی ہے تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہوتا تو میں بھی ہلال ہوجاتا اس لئے جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ حلال ہوجائے۔ اور سراقہ بن مالک جمرہ عقبہ کی رمی کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ یہ حکم اس سال کے لئے خاص ہے یاہمیشہ کے لئے فرمایا ہمیشہ کے لئے یہی حکم ہے پھر ہم عرفات پہنچے وہاں سے واپسی ہوئی تو حضرت عائشہ صدیقہ کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ آپ لوگ حج اور عمرے کے ساتھ روانہ ہوں اور میں صرف حج کے ساتھ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھائی عبدالرحمن کو حکم دیا کہ وہ انہیں تنعیم لے جائیں چنانچہ حضرت عائشہ نے حج کے بعد ذی الحجہ میں ہی عمرہ کیا اور تنعیم سے عمرہ کرکے واپس آگئیں۔

یہ حدیث شیئر کریں