حضرت جابر انصاری کی مرویات۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمَّا اسْتَقْبَلْنَا وَادِيَ حُنَيْنٍ قَالَ انْحَدَرْنَا فِي وَادٍ مِنْ أَوْدِيَةِ تِهَامَةَ أَجْوَفَ حَطُوطٍ إِنَّمَا نَنْحَدِرُ فِيهِ انْحِدَارًا قَالَ وَفِي عَمَايَةِ الصُّبْحِ وَقَدْ كَانَ الْقَوْمُ كَمَنُوا لَنَا فِي شِعَابِهِ وَفِي أَجْنَابِهِ وَمَضَايِقِهِ قَدْ أَجْمَعُوا وَتَهَيَّئُوا وَأَعَدُّوا قَالَ فَوَاللَّهِ مَا رَاعَنَا وَنَحْنُ مُنْحَطُّونَ إِلَّا الْكَتَائِبُ قَدْ شَدَّتْ عَلَيْنَا شَدَّةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ وَانْهَزَمَ النَّاسُ رَاجِعِينَ فَاسْتَمَرُّوا لَا يَلْوِي أَحَدٌ مِنْهُمْ عَلَى أَحَدٍ وَانْحَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ الْيَمِينِ ثُمَّ قَالَ إِلَيَّ أَيُّهَا النَّاسُ هَلُمَّ إِلَيَّ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ فَلَا شَيْءَ احْتَمَلَتْ الْإِبِلُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَانْطَلَقَ النَّاسُ إِلَّا أَنَّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ غَيْرَ كَثِيرٍ وَفِيمَنْ ثَبَتَ مَعَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَمِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَابْنُهُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ وَرَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ وأَيْمَنُ بْنُ عُبَيْدٍ وَهُوَ ابْنُ أُمِّ أَيْمَنَ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ وَرَجُلٌ مِنْ هَوَازِنَ عَلَى جَمَلٍ لَهُ أَحْمَرَ فِي يَدِهِ رَايَةٌ لَهُ سَوْدَاءُ فِي رَأْسِ رُمْحٍ طَوِيلٍ لَهُ أَمَامَ النَّاسِ وَهَوَازِنُ خَلْفَهُ فَإِذَا أَدْرَكَ طَعَنَ بِرُمْحِهِ وَإِذَا فَاتَهُ النَّاسُ رَفَعَهُ لِمَنْ وَرَاءَهُ فَاتَّبَعُوهُ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ وَحَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرٍ عَنْ أَبِيهِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ بَيْنَا ذَلِكَ الرَّجُلُ مِنْ هَوَازِنَ صَاحِبُ الرَّايَةِ عَلَى جَمَلِهِ ذَلِكَ يَصْنَعُ مَا يَصْنَعُ إِذْ هَوَى لَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَرَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُرِيدَانِهِ قَالَ فَيَأْتِيهِ عَلِيٌّ مِنْ خَلْفِهِ فَضَرَبَ عُرْقُوبَيْ الْجَمَلِ فَوَقَعَ عَلَى عَجُزِهِ وَوَثَبَ الْأَنْصَارِيُّ عَلَى الرَّجُلِ فَضَرَبَهُ ضَرْبَةً أَطَنَّ قَدَمَهُ بِنِصْفِ سَاقِهِ فَانْعَجَفَ عَنْ رَحْلِهِ وَاجْتَلَدَ النَّاسُ فَوَاللَّهِ مَا رَجَعَتْ رَاجِعَةُ النَّاسِ مِنْ هَزِيمَتِهِمْ حَتَّى وَجَدُوا الْأَسْرَى مُكَتَّفِينَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم وادی حنین کے سامنے پہنچے تو تہامہ کی ایک جوف دار وادی میں اترے ہم اس میں لڑھکتے ہوئے اترتے جارہے تھے صبح کا وقت تھا دشمن کے لوگ ہماری تاک میں گھاٹیوں، کناروں اور تنگ جگہوں میں گھات لگائے بیٹھے ہوئے تھے وہ لوگ متفق اور خوب تیاری کے ساتھ آئے ہوئے تھے واللہ ابھی ہم لوگ اتر ہی رہے تھے کہ انہوں نے ہمیں سنبھلنے کاموقع نہ دیا اور یکجان ہو کر تمام لشکروں نے ہم پر حملہ کر دیا لوگ شکست کھا کر پیچھے کو پلٹنے لگے اور کسی کو کسی کی ہوش نہ تھی۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب سمٹ گئے اور لوگوں کو آوازیں دینے لگے کہ اے لوگو میرے پاس آؤ میں اللہ کا رسول ہوں میں محمد بن عبداللہ ہوں اس وقت اونٹ بھی ادھر ادھر بھاگے پھر رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مہاجرین وانصار اور اہل بیت کے افراد بہت کم رہ گئے تھے ان ثابت قدم رہنے والوں میں حضرت ابوبکر، عمر بھی تھے اور اہل بیت میں حضرت علی اور حضرت عباس ان کے صاحبزادے فضل ابوسفیان بن حارث ، ربیعہ بن حارث، ایمن بن عبید جو ام ایمن کے صاحبزادے تھے اور حضرت اسامہ بن زید تھے جبکہ بنو ہوازن کا یک آدمی سرخ اونٹ پر سوار تھا اس کے ہاتھ میں ایک سیاہ رنگ کا جھنڈا تھا جو ایک لمبے نیزے کے سر پر بندھا ہوا تھا وہ لوگوں سے آگے تھے اور بقیہ ہوازن اس کے پیچھے پیچھے تھے جب وہ کسی کو پاتا تو اپنے نیزے سے اسے مار دیتا جب کوئی نظر نہ آتا تو وہ اسے اپنے پیچھے والوں کے لئے بلند کردیتا اور وہ اس کے پیچھے چلنے لگتے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابھی بنوہوازن کا وہ آدمی جو علمبردار تھا اپنے اونٹ پر ہی سوار تھا اور وہ سب کچھ کرتاجارہا تھا جو کر رہا تھا کہ اچانک اس کا سامنا حضرت علی اور ایک انصاری سے ہو گیا وہ دونوں اس کے پیچھے لگ گئے چنانچہ حضرت علی نے پیچھے سے آکر اس کے اونٹ کی ایڑیوں پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ اس کی دم کے بل گر پڑا ادھر سے انصاری نے اس پر چھلانگ لگائی اور اس پر ایسا وار کیا کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی تک چر گیا وہ اپنی سواری سے گر گیا اور لوگ بھاگ کھڑے ہوئے واللہ لوگ اپنی شکست سے جان بچا کر جہاں بھی بھاگے بالا آخر وہ قیدی بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے۔
