مسند احمد ۔ جلد ہفتم ۔ حدیث 204

حضرت عمروبن عبسۃ رضی اللہ عنہ کی حدیثیں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ طَلْقٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَسْلَمَ قَالَ حُرٌّ وَعَبْدٌ قَالَ فَقُلْتُ وَهَلْ مِنْ سَاعَةٍ أَقْرَبُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنْ أُخْرَى قَالَ جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الصُّبْحَ ثُمَّ انْهَهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَمَا دَامَتْ كَأَنَّهَا حَجَفَةٌ حَتَّى تَنْتَشِرَ ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَك حَتَّى يَقُومَ الْعَمُودُ عَلَى ظِلِّهِ ثُمَّ انْهَهُ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ فَإِنَّ جَهَنَّمَ تُسْجَرُ لِنِصْفِ النَّهَارِ ثُمَّ صَلِّ مَا بَدَا لَكَ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ ثُمَّ انْهَهُ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَتَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا تَوَضَّأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ وَجْهِهِ فَإِذَا غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ بَيْنِ ذِرَاعَيْهِ وَرَأْسِهِ وَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَّتْ خَطَايَاهُ مِنْ رِجْلَيْهِ فَإِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ وَكَانَ هُوَ وَقَلْبُهُ وَوَجْهُهُ أَوْ كُلُّهُ نَحْوَ الْوَجْهِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ انْصَرَفَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ قَالَ فَقِيلَ لَهُ أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ عَشْرًا أَوْ عِشْرِينَ مَا حَدَّثْتُ بِهِ

حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ پر کون لوگ اسلام لائے ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آزاد بھی اور غلام بھی (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ نے آپ کو جو علم دیا ہے اس میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیجئے؟ کیا کوئی وقت زیادہ افضل ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کا آخری پہر سب سے زیادہ افضل ہے، اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور نماز قبول ہوتی ہے، جب تم فجر کی نماز پڑھ چکو تو طلوع آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رک جاؤ، جب سورج طلوع ہوجائے تب بھی اس وقت تک نہ پڑھو جب تک کہ سورج بلند نہ ہوجائے، کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے، اور اسی وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں ، البتہ جب وہ ایک یا دو نیزے کے برابر بلند ہو جائے تو پھر نماز پڑھ سکتے ہو، کیونکہ یہ نماز فرشتوں کی حاضری والی ہوتی ہے، یہاں تک کہ نیزے کا سایہ پیدا ہونے لگے تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو دہکایا جاتا ہے، البتہ جب سایہ ڈھل جائے تو تم نماز پڑھ سکتے ہو، کیونکہ اس نماز میں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ تم عصر کی نماز پڑھ لو، نماز عصر پڑھنے کے بعد غروب آفتاب تک نوافل پڑھنے سے رک جاؤ، کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اسے اس وقت کفار سجدہ کرتے ہیں ۔ انسان جب وضو کرتا ہے اور ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ، جب چہرہ دھوتا ہے تو چہرے کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ، جب بازو دھوتا اور سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے بازو اور سر کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ، جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ، اور جب دل اور چہرے کی مکمل توجہ کے ساتھ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس طرح واپس لوٹتا ہے کہ اس کی ماں نے اسے ابھی جنم دیا ہو، کسی نے ان سے پوچھا کیا واقعی آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دو نہیں ، بیس مرتبہ یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا تو کبھی بیان نہ کرتا۔

یہ حدیث شیئر کریں