مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ اذان کا بیان۔ ۔ حدیث 621

اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدِ نِ الْخُدْرِیِّص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےَسْمَعُ مَدٰی صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلَا اِنْسٌ وَّلَا شَیْ ءٌ اِلَّا شَھِدَ لَہُ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ ۔(صحیح البخاری)

" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن اور یا جو بھی چیز وہ سب قیامت کے دن مؤذن (کے ایمان) کی گواہی دیں گے۔" (صحیح البخاری )

تشریح
مدی کے معنی" انتہا یعنی اخیر" ہیں۔ آواز کی انتہا یہ ہے کہ اس کی بھنک میں آجائے اور یہ نہ معلوم ہو کہ آواز دینے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں اگرچہ یہی معنی کافی تھا کہ " مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے الخ" لیکن مدی بمعنی انتہاء کو ذکر کر کے اس طرف اشارہ مقصود تھا کہ جن کے کان میں اذان کی محض بھنک پڑ جائے گی جب وہ مؤذن کے ایمان کی گواہی دیں گے تو وہ لوگ تو بطریقی اولیٰ گواہ ہوں گے جو مؤذن کے قریب ہوں گے اور اذان کو قریب سے سنیں گے۔
علماء لکھتے ہیں کہ درحقیقت اس حدیث سے مؤذن کو ترغیب دلانی مقصود ہے کہ اذان نہایت بلند آواز سے کہا کریں تاکہ ان کے ایمان کی گواہی دینے والے زیادہ سے زیادہ ہوں۔

یہ حدیث شیئر کریں