مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مکہ میں داخل ہونے اور طواف کرنے کا بیان ۔ حدیث 1114

اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کا مسئلہ

راوی:

وعن ابن عباس قال : طاف النبي صلى الله عليه و سلم في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور محجن کے ذریعہ حجر اسود کو بوسہ دیا۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
حنفیہ کے ہاں چونکہ پیادہ پا طواف کرنا واجب ہے اس لئے اس حدیث کے بارہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عذر اور مجبوری کی بناء پر اس طرح طواف کیا ہو گا۔ لہٰذا یہ طواف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مختص ہے کسی اور کو سواری پر بیٹھ کر طواف کرنا جائز نہیں ہے۔
علامہ طیبی شافعی فرماتے ہیں کہ اگرچہ پیادہ پا طواف کرنا افضل ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ پر سوار ہو کر اس لئے طواف کیا تاکہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے رہیں۔
یہاں ایک اشکال بھی واقع ہوتا ہے وہ یہ کہ احادیث سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر طواف کرتے ہوئے پہلے تین پھیروں میں رمل کیا تھا، جب کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں رمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیادہ پا طواف کرنا اور اس کے تین پھیروں میں رمل کرنا طواف قدوم کے موقع پر تھا، اور اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کا تعلق طواف افاضہ سے ہے جو فرض ہے اور قربانی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) ہوا تھا اور جسے طواف الرکن بھی کہتے ہیں۔ اور اس موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کی وجہ یہی تھی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے رہیں۔ تاکہ طواف افعال ومسائل سیکھ لیں۔
" محجن" اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کا سرا خمدار ہوتا ہے ا، اس کے ذریعہ حج اسود کو بوسہ دینے کی صورت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لکڑی سے حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے اس کو چومتے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں