مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ قریب المرگ کے سامنے جو چیز پڑھی جاتی ہے اس کا بیان ۔ حدیث 98

میت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا

راوی:

وعن أم سلمة قالت : دخل رسول الله صلى الله عليه و سلم على أبي سلمة قد شق بصره فأغمضه ثم قال : " إن الروح إذا قبض تبعه البصر " فضج ناس من أهله فقال : " لا تدعوا على أنفسكم إلا بخير فإن الملائكة يؤمنون على ماتقولون " ثم قال : " اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين واخلفه في عقبه في الغابرين واغفر لنا وله يا رب العالمين وافسح له في قبره ونور له فيه " . رواه مسلم

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (میرے پہلے شوہر) حضرت ابوسلمہ کے پاس اس وقت تشریف لائے جب کہ ان کی آنکھیں پتھرا گئیں تھیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں کو بند کیا اور فرمایا کہ جب روح قبض کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ بینائی بھی چلی جاتی ہے۔ ابوسلمہ کے اہل بیت (یہ سن کر) سمجھ گئے کہ ابوسلمہ کا انتقال ہو گیا چنانچہ وہ سب رونے، چلانے لگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے نفسوں کے بارہ میں خیر و بھلائی ہی کی دعا کرو (یعنی واویلا اور بد دعا نہ کرو) کیونکہ تم (بری یا بھلی) جس دعا کے بھی الفاظ اپنے منہ سے نکالتے ہو اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں۔ پھر آپ نے یہ دعا ارشاد فرمائی ۔ (اللہم اغفر لابی سلمہ وارفع درجتہ فی المہدیین واخلفہ فی عقبہ فی الغابرین وغفرلنا ولہ یا رب العالمین وافسح لہ فی قبرہ ونور لہ فیہ)۔ اے اللہ٫ ابوسلمہ کو بخش دے اور اس کا مرتبہ بلند فرما ان لوگوں میں جو سیدھی راہ دکھائے گئے ہیں اور اس کے پسماندگان کا جو باقی رہے ہوئے لوگوں میں ہیں کا رساز بن جا اور اے دونوں جہاں کے پروردگار! ہمیں اور اس کو بخش دے اور اس کی قبر میں کشادگی کر اور اس کے لئے قبر کو منور فرما دے۔ آمین۔ (مسلم)

تشریح
ارشاد گرامی کے الفاظ ان الروح اذا قبض الخ کے ذریعہ گویا آپ اغماض یعنی آنکھیں بند کرنے کی علت بیان فرما رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے آنکھوں کو اس لئے بند کر دیا کہ جب روح قبض کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ بینائی بھی چلی جاتی ہے لہٰذا آنکھیں کھلی رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں