مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ غیرآباد زمین کو آباد کرنے اور پانی کے حق کا بیان ۔ حدیث 220

جس قوم میں کمزور انسانوں کے حقوق محفوظ نہ ہوں وہ برائیوں سے پاک نہیں ہوتی

راوی:

وعن طاوس مرسلا : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " من أحيى مواتا من الأرض فهو له وعادي الأرض لله ورسوله ثم هي لكم مني " . رواه الشافعي
(2/179)

3004 – [ 14 ] ( لم تتم دراسته )
وروى في " شرح السنة " : أن النبي صلى الله عليه و سلم أقطع لعبد الله بن مسعود الدور بالمدينة وهي بين ظهراني عمارة الأنصار من المنازل والنخل فقال بنو عبد بن زهرة : نكتب عنا ابن أم عبد فقال لهم رسول الله : " فلم ابتعثني الله إذا ؟ إن الله لا يقدس أمة لا يؤخذ للضعيف فيهم حقه "

اور حضرت طاؤس بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افتادہ وبنجر زمین کو جو شخص آباد کرے گا وہ اسی کی ملکیت ہو جائے گی اور قدیم زمین اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے اور پھر وہ میری طرف سے تمہارے لئے ہے (شافعی اور شرح السنۃ میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو مدینہ میں جو مکانات دئیے وہ انصار کی آبادی یعنی ان کے مکان اور ان کے کھجور کے درختوں کے درمیان واقع تھے چنانچہ عبد بن زہرہ کے بیٹوں نے کہا کہ آپ ام عبد کے بیٹے (یعنی عبداللہ بن مسعود) کو ہم سے دور رکھیئے) اس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے کیوں بھیجا ہے یاد رکھو اللہ تعالیٰ اس قوم کو پاکیزگی عطاء نہیں کرتا جس میں کمزور کے حق کو تحفظ حاصل نہ ہو۔

تشریح :
عاری الارض قدیم زمین سے مراد وہ افتادہ وبنجر زمین ہے جس کے مالک کا کوئی علم نہ ہو اس میں زمین کی لفظی نسبت عاد یعنی حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کی طرف محض ایسی زمین کی قدامت کے اظہار میں مبالغہ کے لئے ہے کیونکہ حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کی مدت قدامت بہت زیادہ ہے اور اس کے رسول کے لئے ہے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تمام افتادہ وبنجرزمینیں جن کا کوئی مالک نہیں ہے میرے تسلط میں ہیں اپنی مرضی ومصلحت کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہوں کہ جسے چاہتا ہوں عطاء کرتا ہوں اور اس کو آباد کرنے کی اجازت دیتاہوں۔ قاضی لکھتے ہیں کہ ثم ہی لکم منی اور پھر میری طرف سے تمہارے لئے ہے سے معلوم ہوا کہ اس جمعے اور قدیم زمین اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں میں اللہ کی عظمت شان کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی تمہید کے طور پر ہے ورنہ بظاہر اللہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ کا حکم وفیصلہ گویا اللہ کا حکم وفیصلہ ہے۔
عبد ابن زہرہ کے بیٹوں نے اپنے مکانات اور کھجوروں کے درختوں کے درمیان حضرت عبداللہ بن مسعود کو مکان دئیے جانے کی جو مخالفت کی اس کا ایک جذباتی پس منظر تھا اور وہ یہ کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کے والد یعنی مسعود زمانہ جاہلیت میں عبد ابن زہرہ کے بیٹوں کے حریف مقابل تھے نیز حضرت عبداللہ کی والد یعنی ام عبد ان کے خدمت گاروں میں سے تھیں چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ ابن مسعود کو ایسی جگہ مکانات دئیے جو عبد ابن زہرہ کے بیٹوں کے مکانات اور ان کے کھجروروں کے باغات کے درمیان واقع تھی تو یہ ان کو گوارا نہیں ہوا کہ عبداللہ ابن مسعود کامکان ان کے مکانات کے درمیان واقع ہو گویا اس طرح انہوں نے اپنے ان جذبات حقارت کا اظہار کیا جو وہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کے تئیں رکھتے تھے۔
لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے غلط جذبات پر برہمی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اگر حقوق العباد اس قسم کے احساسات سے متعلق ہوتے ہیں اور کمزور انسانوں کے تئیں یہ جذبات وحقارت جائز ہوتے تو میں اللہ کا رسول بن کر اس دنیا میں کیوں آتا؟ اگر میں کمزورونا تو انوں اور مسکینوں کی تقویت کا باعث اور ان کا مدد گار نہ بنوں تو میری بعثت کا ایک بڑا مقصد کیسے پورا ہوگا اور میری بعثت میں اللہ کی کیا حکمت رہ جائے گی؟ تمہیں نہ بھولنا چاہئے کہ میرے بنیادی مقاصد میں یہ بات داخل ہے کہ میں انسانوں کے درمیان اونچ نیچ اور معاشرتی فرق وامتیاز کی خود ساختہ دیواروں کو ڈھا دوں جو لوگ اپنے آپ کو طاقتور وبڑا سمجھتے ہوں انہیں راہ اعتدال پر لاؤں اور جو کمزور ونا تو اں ہوں انہیں اپنی مدد ونصرت سے طاقت بخشوں پھر آپ نے قوموں کے کیرکٹر وکردار کے ایک بڑے نازک گوشے کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو قوم اپنے کمزور افراد کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتی اور جس قوم میں کمزور انسانوں کی کوئی اہمیت ووقعت نہیں ہوتی وہ قوم نہ صرف یہ کہ کائنات انسانی کا ایک بدترین حصہ ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو گناہوں اور برائیوں سے پاکیزگی عطاء نہیں کرتا جس قوم کے طاقتور لوگ کمزور لوگوں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں ان کی سماجی ومعاشرتی زندگی پر بدعنوانیوں اور گناہ ومعصیت کی دبیز تہیں جم جاتی ہیں جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم نہ تو معاشرہ میں کوئی باوقار اور صالح کردارانجام دیتی ہے اور نہ اللہ کی طرف سے ان پر حمت وبرکت نازل ہوتی ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد ابن زہرہ کے بیٹوں کو آگاہ فرمایا کہ یہ مت سمجھو کہ عبداللہ ابن مسعد چونکہ دنیاوی طور پر تم سے کمتر ہیں اور وہ ایک کمزور انسان ہیں اس لئے تم ان کا یہ جائز حق کہ وہ جس موزوں جگہ پر چاہیں اپنی سکونت اختیار کریں غضب کر لوگے میں ان کا مدد گارومعین ہوں اور مجھ پر یہ لازم ہے کہ میں ان کی حمایت کروں۔

یہ حدیث شیئر کریں