مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ نکاح کے ولی اور عورت سے نکاح کی اجازت لینے کا بیان ۔ حدیث 353

بالغہ عورت کا نکاح ولی کرنا مستحب ہے

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تزوج المرأة المرأة ولا تزوج المرأة نفسها فإن الزانية هي التي تزوج نفسها " . رواه ابن ماجه

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے کیونکہ وہ عورت زنا میں مبتلا رہتی ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے ( ابن ماجہ)

تشریح :
عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے حنفیہ کے نزدیک اس ممانعت کا تعلق یا تو اس عورت سے ہے جس کو ولایت حاصل نہ ہو یا پھر یہ نہی تنزیہی پر محمول ہے کیونکہ اگرچہ بالغہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا نکاح اپنے ولی کی اجازت کے بغیر خود کر لے یا کسی کو بھی اپنا وکیل بنا لے ۔ لیکن اس کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ اپنے نکاح کا معاملہ اپنے ولی ہی کو سپرد کر دے چنانچہ اگر کسی عورت کا ولی موجود ہو تو اس عورت کا نکاح اسی کو کرنا مستحب ہے اور یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے اگر کسی کا کوئی بھی ولی موجود نہ ہو تو پھر اس کا ولی قاضی ہوتا ہے۔
لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ بہتر اور مناسب بات یہ ہے کہ جس عورت کا ولی موجود ہو تو کوئی دوسری عورت اس کا نکاح نہ کرے بلکہ وہ ولی خود کرے اور اگر ولی موجود نہ ہو تو پھر قاضی کو حق ولایت حاصل ہوگا جو اس عورت کا نکاح کرے گا
نہ عورت خود اپنا نکاح کرے حنفیہ کے نزدیک مراد یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر نکاح نہ کرے ۔ اس طرح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب حنفیہ کی مراد کی روشنی میں تو یہ ہوگا کہ جو عورت اس شوہر سے مجامعت کریگی جس سے اس نے بغیر گواہوں کے اور اس کے غیرکفو ہونے کے باوجود نکاح کیا ہے تو اس کی مجامعت زنا کے حکم میں ہو گی اور حضرت امام شافعی کی مراد کی روشنی میں یہ مطلب ہوگا کہ جو عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح کریگی تو وہ جب بھی اپنے اس شوہر سے مجامعت کریگی گویا زنا کا ارتکاب کریگی کیونکہ امام شافعی کے نزدیک جس طرح کسی عورت کو کسی دوسری عورت کا عقد کرنے کی ولایت حاصل نہیں ہوتی اسی طرح کوئی عورت خود اپنا عقد نکاح کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتی ۔ چنانچہ شوافع کے ہاں عورتوں کی عبارت کے ساتھ نکاح صحیح نہیں ہوتا۔

یہ حدیث شیئر کریں