مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ عدت کا بیان ۔ حدیث 520

عدت کا بیان

راوی:

عدت کے معنی :
لغت میں عدت کے معنی ہیں شمار کرنا اور اصطلاح شریعت میں عدت اسے کہتے ہیں کہ جب کسی عورت کو اس کا خاوند طلاق دیدے یا خلع و ایلاء وغیرہ کے ذریعہ نکاح یا نکاح جیسی چیز مثلا نکاح فاسد ٹوٹ جائے بشرطیکہ اس نکاح میں جماع یا خلوت صحیحہ ہو چکی ہو یا شوہر مر جائے تو وہ مقررہ مدت کہ جس کی تفصیل آگے آئے گی) گھر میں رکی رہے جب تک وہ مدت ختم نہ ہوجائے تب تک نہ کہیں جائے اور نہ کسی دوسرے مرد سے ملاقات کرے جب مدت پوری ہو جائے تو جہاں چاہے جائے اور جس طرح چاہے نکاح کرے ۔
عدت کی مدت :
جس آزاد عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی ہو یا نکاح فسخ ہو گیا ہو اور اس کو حیض آتا ہو تو اس کی عدت کی مدت تین حیض ہے یعنی وہ تین حیض آنے تک شوہر ہی کے گھر میں جہاں طلاق ملی ہو بیٹھی رہے اس گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ کسی سے نکاح کرے اسی طرح جس عورت کے ساتھ شبہ میں جماع ہو گیا ہو اس کی عدت کی مدت بھی تین حیض ہے یعنی کسی مرد نے کسی غیر عورت کو اپنی بیوی سمجھ کر دھوکہ سے صحبت کر لی تو اس عورت کو بھی تین حیض آنے تک عدت میں بیٹھنا ہو گا جب تک عدت ختم نہ ہو جائے تب تک وہ اپنے شوہر کو جماع نہ کرنے دے جس عورت کے ساتھ بے قاعدہ یعنی فاسد نکاح ختم ہوا ہو جیسے موقت نکاح اور پھر تفریق کرا دی گئی یا تفریق کرانے سے پہلے ہی خاوند مر گیا ہو تو اس عدت کی مدت بھی تین حیض ہے۔ ام ولد جب کہ آزاد کر دی جائے یا اس کا مولیٰ مر جائے تو اس کی عدت بھی تین حیض ہیں ۔
اگر کسی عورت کو کم سن ہونے کیوجہ سے یا بانجھ ہونے کی وجہ سے اور یا بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت تین مہینہ ہے۔
جس آزاد عورت کا خاوند مر گیا اور اس کی عدت چار مہینہ دس دن ہے خواہ اس عورت سے جماع کیا گیا ہو یا جماع نہ کیا گیا ہو خواہ وہ مسلمان عورت ہو یا مسلمان مرد کے نکاح میں یہودیہ اور نصرانیہ ہو خواہ وہ بالغہ ہو یا نابالغہ اور یا آئسہ ہو خواہ اس کا شوہر آزاد ہو یا غلام ہو اور خواہ اس کی مدت میں اس کو حیض آئے یا نہ آئے۔
حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے خواہ اس عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دی ہو یا اس کا خاوند مر گیا ہو اور خواہ وہ عورت آزاد ہو یا لونڈی ولادت ہوتے ہی اس کی عدت پوری ہو جائیگی اگرچہ خاوند کے طلاق دینے یا خاوند کے مرنے کے کچھ ہی دیر بعد ولادت ہو جائے یہاں تک کہ کتاب مبسوط میں لکھا ہے کہ اگر حاملہ عورت کا شوہر مر گیا ہو اور وہ ابھی تختہ پر نہلایا جا رہا تھا یا کفنایا جا رہا تھا کہ اس عورت کے ولادت ہو گئی تو اس صورت میں بھی اس کی عدت پوری
ہو جائیگی ۔
جو عورت آزاد ہو یعنی کسی کی لونڈی ہو اور اس کا خاوند اس کو طلاق دے دے تو اس کی عدت دو حیض ہے بشرطیکہ اس کو حیض آتا ہو اور اگر اس کو حیض نہ آتا ہو تو پھر اس کی عدت ڈیڑھ مہینہ ہو گی اور اگر اس کا خاوند مر جائے تو تو اس کی عدت دو مہینے پانچ دن ہو گی خواہ اس کو حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو ۔
عدت کی ابتداء کا وقت :
طلاق کی صورت میں عدت کی ابتداء طلاق کے بعد سے ہو گی یعنی طلاق کے بعد جو تین حیض آئیں گے ان کا شمار ہوگا اگر کسی نے حیض کی حالت میں طلاق دی ہو گی تو اس حیض کا شمار نہ ہو گا بلکہ اس کے بعد کے تین حیض کا اعتبار کیا جائے گا اور وفات میں عدت کا شمار شوہر کی وفات کے بعد سے ہو گا اگر عورت کو طلاق یا وفات کی خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ عدت کی مدت گزر گئی تو اس کی عدت پوری ہو گی عدت کے مسائل کی باقی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں