صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ تیمم کا بیان ۔ حدیث 341

پاک مٹی ایک مسلمان کے لئے وضو ( کی طرح) ہے، جو پانی سے کفایت کرتی ہے (اس کی جگہ ضرورت پوری کرتی ہے) حسن بصری نے کہا ہے کہ تیمم اس وقت تک کافی ہوتا ہے جب تک دوبارہ بے وضو نہ ہو، ابن عباس نے تیمم کی حالت میں امامت کی اور یحییٰ بن سعید نے کہا ہے کہ شور زمین پر نماز پڑھنا اور اس سے تیمم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں

راوی: مسدد , یحیی بن سعید , عوف , ابورجاء , عمر ان

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَوْفٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ عَنْ عِمْرَانَ قَالَ کُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّا أَسْرَيْنَا حَتَّی کُنَّا فِي آخِرِ اللَّيْلِ وَقَعْنَا وَقْعَةً وَلَا وَقْعَةَ أَحْلَی عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ وَکَانَ أَوَّلَ مَنْ اسْتَيْقَظَ فُلَانٌ ثُمَّ فُلَانٌ ثُمَّ فُلَانٌ يُسَمِّيهِمْ أَبُو رَجَائٍ فَنَسِيَ عَوْفٌ ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الرَّابِعُ وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَامَ لَمْ يُوقَظْ حَتَّی يَکُونَ هُوَ يَسْتَيْقِظُ لِأَنَّا لَا نَدْرِي مَا يَحْدُثُ لَهُ فِي نَوْمِهِ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ وَرَأَی مَا أَصَابَ النَّاسَ وَکَانَ رَجُلًا جَلِيدًا فَکَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّکْبِيرِ فَمَا زَالَ يُکَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّکْبِيرِ حَتَّی اسْتَيْقَظَ بِصَوْتِهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ شَکَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ قَالَ لَا ضَيْرَ أَوْ لَا يَضِيرُ ارْتَحِلُوا فَارْتَحَلَ فَسَارَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِالْوَضُوئِ فَتَوَضَّأَ وَنُودِيَ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّی بِالنَّاس فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ قَالَ مَا مَنَعَکَ يَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ قَالَ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَائَ قَالَ عَلَيْکَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَکْفِيکَ ثُمَّ سَارَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَکَی إِلَيْهِ النَّاسُ مِنْ الْعَطَشِ فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا کَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَائٍ نَسِيَهُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِيًّا فَقَالَ اذْهَبَا فَابْتَغِيَا الْمَائَ فَانْطَلَقَا فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ مِنْ مَائٍ عَلَی بَعِيرٍ لَهَا فَقَالَا لَهَا أَيْنَ الْمَائُ قَالَتْ عَهْدِي بِالْمَائِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ وَنَفَرُنَا خُلُوفًا قَالَا لَهَا انْطَلِقِي إِذًا قَالَتْ إِلَی أَيْنَ قَالَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ قَالَا هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ فَانْطَلِقِي فَجَائَا بِهَا إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثَاهُ الْحَدِيثَ قَالَ فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِيرِهَا وَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَائٍ فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ وَأَوْکَأَ أَفْوَاهَهُمَا وَأَطْلَقَ الْعَزَالِيَ وَنُودِيَ فِي النَّاسِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا فَسَقَی مَنْ شَائَ وَاسْتَقَی مَنْ شَائَ وَکَانَ آخِرُ ذَاکَ أَنْ أَعْطَی الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَائً مِنْ مَائٍ قَالَ اذْهَبْ فَأَفْرِغْهُ عَلَيْکَ وَهِيَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ إِلَی مَا يُفْعَلُ بِمَائِهَا وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أُقْلِعَ عَنْهَا وَإِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلْأَةً مِنْهَا حِينَ ابْتَدَأَ فِيهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اجْمَعُوا لَهَا فَجَمَعُوا لَهَا مِنْ بَيْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِيقَةٍ وَسَوِيقَةٍ حَتَّی جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا فَجَعَلُوهَا فِي ثَوْبٍ وَحَمَلُوهَا عَلَی بَعِيرِهَا وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَيْنَ يَدَيْهَا قَالَ لَهَا تَعْلَمِينَ مَا رَزِئْنَا مِنْ مَائِکِ شَيْئًا وَلَکِنَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَسْقَانَا فَأَتَتْ أَهْلَهَا وَقَدْ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ قَالُوا مَا حَبَسَکِ يَا فُلَانَةُ قَالَتْ الْعَجَبُ لَقِيَنِي رَجُلَانِ فَذَهَبَا بِي إِلَی هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ فَفَعَلَ کَذَا وَکَذَا فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَأَسْحَرُ النَّاسِ مِنْ بَيْنِ هَذِهِ وَهَذِهِ وَقَالَتْ بِإِصْبَعَيْهَا الْوُسْطَی وَالسَّبَّابَةِ فَرَفَعَتْهُمَا إِلَی السَّمَائِ تَعْنِي السَّمَائَ وَالْأَرْضَ أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ حَقًّا فَکَانَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِکَ يُغِيرُونَ عَلَی مَنْ حَوْلَهَا مِنْ الْمُشْرِکِينَ وَلَا يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ مِنْهُ فَقَالَتْ يَوْمًا لِقَوْمِهَا مَا أُرَی أَنَّ هَؤُلَائِ الْقَوْمَ يَدْعُونَکُمْ عَمْدًا فَهَلْ لَکُمْ فِي الْإِسْلَامِ فَأَطَاعُوهَا فَدَخَلُوا فِي الْإِسْلَامِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ صَبَأَ خَرَجَ مِنْ دِينٍ إِلَی غَيْرِهِ وَقَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ الصَّابِئِينَ فِرْقَةٌ مِنْ أَهْلِ الکِتَابِ يَقْرَئُونَ الزَّبُورَ اصب وامل

مسدد، یحیی بن سعید، عوف، ابو رجاء، حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہم رات کو چلتے رہے، جب اخیر رات ہوئی، تو اس وقت میں ہم ایک جگہ ٹھہر گئے اور (آپ جانتے ہیں) مسافر کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی نیند شیریں نہیں ہوتی، ابھی ہم تھوڑا وقت سوئے تھے کہ ہمیں آفتاب کی گرمی نے بیدار کر دیا، سب سے پہلے جو بیدار ہوا، فلاں شخص تھا، پھر فلاں شخص، پھر فلاں شخص، ابورجاء نے ان سب کے نام لئے تھے، مگر عوف بھول گئے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جاگنے ہونے والوں میں چوتھے شخص تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آرام فرماتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بیدار نہ کرتا تھا، جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بیدار نہ ہوجائیں، کیونکہ ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کے خواب میں کیا امور پیش آنے والے ہیں، مگر جب عمر بیدار ہوئے، انہوں نے وہ حالت دیکھی، جو لوگوں پر طاری تھی اور وہ سخت مزاج آدمی تھے، تو انہوں نے تکبیر کہی اور تکبیر کے ساتھ اپنے آواز بلند کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی آواز کے وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے، جب آپ بیدار ہوئے تو جو مصیبت لوگوں پر گذری تھی، اس کی شکایت آپ سے کی گئی، آپ نے فرمایا کچھ نقصان نہیں، یا (یہ فرمایا کہ) کچھ نقصان نہ کرے گا، چلو پھر چلے اور تھوڑی دور جا کر اتر پڑے، وضو کا پانی منگوایا، پھر وضو کیا، اور نماز کے لئے اذان کہی گئی آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے، یکایک ایک ایسے شخص پر آپ کی نظر پڑی، جو گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں کے ساتھ اس نے نماز نہیں پڑھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فلاں تجھے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کیا چیز مانع آگئی؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی ضرورت ہوگئی تھی اور پانی نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے لئے مٹی سے تیمم کرنا کافی ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلے تو لوگوں نے آپ سے پیاس کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتر پڑے اور فلاں شخص کو بلایا، ابورجاء نے اس کا نام لیا تھا، مگر عوف بھول گئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا فرمایا کہ دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرو، یہ دونوں چلے تو ایک عورت ملی جو پانی کے دو تھیلے یا دو مشکیزے اونٹ پر دونوں طرف لٹکائے اور خود درمیان میں بیٹھی (ہوئی چلی جا رہی) تھی، ان دونوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ کل اس وقت میں پانی پر تھی، اور ہمارے مرد گم ہو گئے، ان دونوں نے اس سے کہا کہ (اچھا تو) اب چل، وہ بولی کہاں تک؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، اس نے کہا وہی شخص جسے بے دین کہا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! وہی ہیں، جن کو تم یہ کہتی ہو، تو چلو، پس وہ دونوں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ساری کیفیت بیان کی، عمران کہتے ہیں پھر لوگوں نے اس کو اونٹ سے اتارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا، اور دونوں تھیلوں یا دونوں مشکیزوں کے منہ اس میں کھول دئیے، اور اس کے بعد ان کے بڑے منہ کو بند کر دیا اور ان کے چھوٹے منہ کو کھول دیا، لوگوں میں آواز دے دی گئی کہ (چلو) پانی پیو اور جانوروں کو بھی پلالو، پس جس نے چاہا خود پیا اور جس نے چاہا پلایا، آخر میں یہ ہوا کہ جس شخص کو غسل کی ضرورت ہوگئی تھی، اس کو پانی کا ایک برتن دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جا! اور اس کو اپنے اوپر ڈال لے، وہ عورت کھڑی ہوئی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے، اللہ کی قسم! (جب پانی لینا) اس کے تھیلے سے موقوف کیا گیا، تو یہ حال تھا کہ ہمارے خیال میں وہ اب اس وقت سے بھی زیادہ بھرا ہوا تھا، جب آپ نے اس سے پانی لینا شروع کیا تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لئے جمع کر دو، لوگوں نے اس کیلئے عجوہ ، دقیق اور سویق وغیرہ جمع کر دیا، جو ایک اچھی مقدار میں جمع ہو گیا اور اس کو ایک کپڑے میں باندھ دیا اور اس عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کر کے کپڑا اس کے سامنے رکھ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تم جانتی ہو کہ ہم نے تمہارے پانی سے کچھ بھی کم نہیں کیا، لیکن اللہ ہی نے ہمیں پلایا، اب عورت اپنے گھر والوں کے پاس آئی، چونکہ اس کو واپس ہونے میں تاخیر ہوگئی تھی، تو انہوں نے کہا کہ اے فلانہ! تجھے کس نے روک لیا؟ اس نے کہا کہ تعجب کی بات ہے، مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے، جسے بے دین کہا جاتا ہے، اس نے ایسا ایسا کام کیا، اللہ کی قسم! وہ یقینا اس کے اور اس کے درمیان میں سب سے بڑھ کر جادوگر ہے (اور اس نے اپنی دونوں انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا پھر ان کو آسمان کی طرف اٹھایا، مراد اس کی آسمان و زمین تھے) یا وہ سچ مچ اللہ کا رسول ہے، اس کے بعد مسلمان ان کے آس پاس کے مشرکوں کو غارت کرتے تھے اور ان مکانات کو جن میں وہ تھی نہ چھوتے تھے، چنانچہ اس نے ایک دن اپنی قوم سے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ بیشک یہ لوگ عمدا تمہیں چھوڑ دیتے ہیں، تو اب بھی تمہیں اسلام میں کچھ پس و پیش ہے؟ تو انہوں نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہو گئے، ابوعبداللہ کہتے ہیں کہ صبا (کے معنی ہیں) ایک دین سے دوسرے دین کی طرف چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صائبین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے، جو زبور پڑھتا ہے اور( اصب کے معنی ہیں مائل ہوں گا۔)

Narrated 'Imran: Once we were traveling with the Prophet and we carried on traveling till the last part of the night and then we (halted at a place) and slept (deeply). There is nothing sweeter than sleep for a traveler in the last part of the night. So it was only the heat of the sun that made us to wake up and the first to wake up was so and so, then so and so and then so and so (the narrator 'Auf said that Abu Raja' had told him their names but he had forgotten them) and the fourth person to wake up was 'Umar bin Al-Khattab. And whenever the Prophet used to sleep, nobody would wake up him till he himself used to get up as we did not know what was happening (being revealed) to him in his sleep. So, 'Umar got up and saw the condition of the people, and he was a strict man, so he said, "Allahu Akbar" and raised his voice with Takbir, and kept on saying loudly till the Prophet got up because of it. When he got up, the people informed him about what had happened to them. He said, "There is no harm (or it will not be harmful). Depart!" So they departed from that place, and after covering some distance the Prophet stopped and asked for some water to perform the ablution. So he performed the ablution and the call for the prayer was pronounced and he led the people in prayer. After he finished from the prayer, he saw a man sitting aloof who had not prayed with the people. He asked, "O so and so! What has prevented you from praying with us?" He replied, "I am Junub and there is no water.” The Prophet said, "Perform Tayammum with (clean) earth and that is sufficient for you."
Then the Prophet proceeded on and the people complained to him of thirst. Thereupon he got down and called a person (the narrator 'Auf added that Abu Raja' had named him but he had forgotten) and 'Ali, and ordered them to go and bring water. So they went in search of water and met a woman who was sitting on her camel between two bags of water. They asked, "Where can we find water?" She replied, "I was there (at the place of water) this hour yesterday and my people are behind me." They requested her to accompany them. She asked, "Where?" They said, "To Allah's Apostle." She said, "Do you mean the man who is called the Sabi, (with a new religion)?" They replied, "Yes, the same person. So come along." They brought her to the Prophet and narrated the whole story. He said, "Help her to dismount." The Prophet asked for a pot, then he opened the mouths of the bags and poured some water into the pot. Then he closed the big openings of the bags and opened the small ones and the people were called upon to drink and water their animals. So they all watered their animals and they (too) all quenched their thirst and also gave water to others and last of all the Prophet gave a pot full of water to the person who was Junub and told him to pour it over his body. The woman was standing and watching all that which they were doing with her water. By Allah, when her water bags were returned the looked like as if they were more full (of water) than they had been before (Miracle of Allah's Apostle) Then the Prophet ordered us to collect something for her; so dates, flour and Sawiq were collected which amounted to a good meal that was put in a piece of cloth. She was helped to ride on her camel and that cloth full of food-stuff was also placed in front of her and then the Prophet said to her, "We have not taken your water but Allah has given water to us." She returned home late. Her relatives asked her: "O so and so what has delayed you?" She said, "A strange thing! Two men met me and took me to the man who is called the Sabi' and he did such and such a thing. By Allah, he is either the greatest magician between this and this (gesturing with her index and middle fingers raising them towards the sky indicating the heaven and the earth) or he is Allah's true Apostle."
Afterwards the Muslims used to attack the pagans around her abode but never touched her village. One day she said to her people, "I think that these people leave you purposely. Have you got any inclination to Islam?" They obeyed her and all of them embraced Islam.
Abu 'Abdultah said: The word Saba'a means "The one who has deserted his old religion and embraced a new religion." Abul 'Ailya said, "The Sabis are a sect of people of the Scripture who recite the Book of Psalms."

یہ حدیث شیئر کریں