صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ مرتدوں اور دشمنوں سے توبہ کرانا ۔ حدیث 1867

تاویل کرنے والوں کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں، ابو عبداللہ (بخاری) نے کہا کہ لیث بواسطہ یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، مسعود بن مخزومہ و عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں نے شام بن حکیم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورۃ فرقان پڑھتے ہوئے سنا میں نے ان کو بہت سے حرفوں کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا کہ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو نہیں پڑھایا تھا، میں قریب تھا کہ ان پر نمازی ہی کی حالت میں حملہ کردوں لیکن میں نے انتظار کیا یہاں تک انہوں نے سلام پھیرا، پھر میں نے اپنی یا ان کی چادر ان کے گلے میں ڈالی اور میں نے کہا کہ تجھے یہ سورت کس نے سکھائی ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت پڑھائی ہے، میں نے ان سے کہا تم جھوٹے ہو، خدا کی قسم مجھے آخرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت پڑھائی ہے جو تمہیں پڑھتے ہوئے میں نے سنا ہے۔چنانچہ میں ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا اور میں نے کہا یا رسول اللہ، میں نے ان کو سورت فرقان ان حرفوں کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائی۔ حالانکہ آپ مجھے سورت فرقان پڑھا چکے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عرم اس کو چھوڑ دو اور اے ہشام تم پڑھو، تو انہوں نے اسی طور پڑھا جس طرح یہ پڑھتے ہوئےمیں نے ان کو سنا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر اب تم پڑھو، میں نے پڑھا، تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر فرمایا کہ قرآن سات طریقوں سے نازل ہوا ہے اس لئے جو آسان ہو اس میں سے پڑھو۔

راوی: موسیٰ بن اسمعیل , ابوعوانہ , حصین , فلاں (سعد بن عبیدہ)

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ فُلَانٍ قَالَ تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ لِحِبَّانَ لَقَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَکَ عَلَی الدِّمَائِ يَعْنِي عَلِيًّا قَالَ مَا هُوَ لَا أَبَا لَکَ قَالَ شَيْئٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ قَالَ مَا هُوَ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ وَأَبَا مَرْثَدٍ وَکُلُّنَا فَارِسٌ قَالَ انْطَلِقُوا حَتَّی تَأْتُوا رَوْضَةَ حَاجٍ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ هَکَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَی الْمُشْرِکِينَ فَأْتُونِي بِهَا فَانْطَلَقْنَا عَلَی أَفْرَاسِنَا حَتَّی أَدْرَکْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسِيرُ عَلَی بَعِيرٍ لَهَا وَقَدْ کَانَ کَتَبَ إِلَی أَهْلِ مَکَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقُلْنَا أَيْنَ الْکِتَابُ الَّذِي مَعَکِ قَالَتْ مَا مَعِي کِتَابٌ فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا فَقَالَ صَاحِبَايَ مَا نَرَی مَعَهَا کِتَابًا قَالَ فَقُلْتُ لَقَدْ عَلِمْنَا مَا کَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ حَلَفَ عَلِيٌّ وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْکِتَابَ أَوْ لَأُجَرِّدَنَّکِ فَأَهْوَتْ إِلَی حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِکِسَائٍ فَأَخْرَجَتْ الصَّحِيفَةَ فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَاطِبُ مَا حَمَلکَ عَلَی مَا صَنَعْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي أَنْ لَا أَکُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَلَکِنِّي أَرَدْتُ أَنْ يَکُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يُدْفَعُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِکَ أَحَدٌ إِلَّا لَهُ هُنَالِکَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ قَالَ صَدَقَ لَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا قَالَ فَعَادَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي فَلِأَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ وَمَا يُدْرِيکَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ أَوْجَبْتُ لَکُمْ الْجَنَّةَ فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ خَاخٍ أَصَحُّ وَلَکِنْ کَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ وَحَاجٍ تَصْحِيفٌ وَهُوَ مَوْضِعٌ وَهُشَيْمٌ يَقُولُ خَاخٍ

موسی بن اسماعیل، ابوعوانہ، حصین، فلاں (سعد بن عبیدہ) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ابوعبدالرحمن اور حبان بن عطیہ میں جھگڑا ہوا تو ابوعبدالرحمن نے حبان سے کہا کہ میں اس بات کو جانتا ہوں جس نے تمہارے دوست یعنی حضرت علی کو خونریزی پر دلیر کردیا ہے، حبان نے کہا کہ وہ کیا ہے تیرا باپ نہ ہو، ابوعبدالرحمن نے کہا کہ میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا ہے، حبان نے کہا کہ وہ بتا، کیا ہے، ابوعبدالرحمن نے کہا وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے زبیر اور ابومرثد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا اور ہم سب سوار تھے، آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جاؤ ، یہاں تک کہ روضہ حاج میں پہنچو، ابوسلمہ کا بیان ہے کہ ابوعوانہ نے حاج کا لفظ ہی کہا تھا وہاں ایک عورت ہوگی جس کے پاس حاطب بن بلتعہ کا خط مشرکین کے نام ہوگا، اس کو میرے پاس لے آؤ، چنانچہ ہم لوگ اپنے گھوڑوں پر چلے یہاں تک کہ ہم نے اسے وہیں پالیا، جہاں کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا تھا۔ وہ اپنے اونٹ پر چلی جارہی تھی، (حاطب) نے اہل مکہ کے نام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روانگی کے متعلق لکھا تھا کہ ہم نے کہا کہ کہاں ہے تیرے پاس خط ہے ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھا دیا، اور اس کے کجاوے میں تلاش کیا لیکن ہمیں نہیں ملا، میرے ساتھی نے کہا کہ ہمیں اس کے پاس کوئی خط نہیں دکھائی دیتا، حضرت علی کا بیان ہے کہ میں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھوٹ نہیں کہا، حضرت علی نے قسم کھائی اس ذات کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے اور کہا کہ تو وہ خط نکال ورنہ میں تجھے ننگا کردوں گا، وہ عورت کمر کی طرف جھکی اور کمر سے ایک چادر باندھی ہوئی تھی اس میں سے خط نکالا، یہ لوگ اس کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عمرنے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنین سے خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑادوں، آپ نے فرمایا کہ اے حاطب تجھے اس چیز پر کس نے آمادہ کیا، حاطب نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے لئے کیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والا نہ رہوں، لیکن میں نے چاہا کہ اس قوم پر میرا کچھ احسان ہو تاکہ میرے اہل اور مال کی حفاظت ہو، اور آپ کے اصحاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کچھ لوگ وہاں نہ ہوں، اللہ ان کے ذریعے ان کے اہل وعیال کی حفاظت کرتا ہے، آپ نے فرمایا کہ ٹھیک کہا، تم لوگ سوائے خیر کے اور کوئی بات نہ کہو، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوبارہ عرض کیا اور کہا کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کی آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑادوں، آپ نے کہا یہ بدری نہیں ہے اور کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ ان کے دلوں کے حال سے آگاہ ہے، اور فرما دیا جو چاہو کرو، تمہارے لئے جنت واجب ہوگئی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں ڈب ڈبا گئیں اور کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔

Narrated:
Abu 'Abdur-Rahman and Hibban bin 'Atiyya had a dispute. Abu 'Abdur-Rahman said to Hibban, "You know what made your companions (i.e. Ali) dare to shed blood." Hibban said, "Come on! What is that?" 'Abdur-Rahman said, "Something I heard him saying." The other said, "What was it?" 'AbdurRahman said, "'Ali said, Allah's Apostle sent for me, Az-Zubair and Abu Marthad, and all of us were cavalry men, and said, 'Proceed to Raudat-Hajj (Abu Salama said that Abu 'Awana called it like this, i.e., Hajj where there is a woman carrying a letter from Hatib bin Abi Balta'a to the pagans (of Mecca). So bring that letter to me.' So we proceeded riding on our horses till we overtook her at the same place of which Allah's Apostle had told us. She was traveling on her camel. In that letter Hatib had written to the Meccans about the proposed attached of Allah's Apostle against them. We asked her, "Where is the letter which is with you?' She replied, 'I haven't got any letter.' So we made her camel kneel down and searched her luggage, but we did not find anything. My two companions said, 'We do not think that she has got a letter.' I said, 'We know that Allah's Apostle has not told a lie.'"
Then 'Ali took an oath saying, "By Him by Whom one should swear! You shall either bring out the letter or we shall strip off your clothes." She then stretched out her hand for her girdle (round her waist) and brought out the paper (letter). They took the letter to Allah's Apostle. 'Umar said, "O Allah's Apostle! (Hatib) has betrayed Allah, His Apostle and the believers; let me chop off his neck!" Allah's Apostle said, "O Hatib! What obliged you to do what you have done?" Hatib replied, "O Allah's Apostle! Why (for what reason) should I not believe in Allah and His Apostle? But I intended to do the (Mecca) people a favor by virtue of which my family and property may be protected as there is none of your companions but has some of his people (relatives) whom Allah urges to protect his family and property." The Prophet said, "He has said the truth; therefore, do not say anything to him except good." 'Umar again said, "O Allah's Apostle! He has betrayed Allah, His Apostle and the believers; let me chop his neck off!" The Prophet said, "Isn't he from those who fought the battle of Badr? And what do you know, Allah might have looked at them (Badr warriors) and said (to them), 'Do what you like, for I have granted you Paradise?' " On that, 'Umar's eyes became flooded with tears and he said, "Allah and His Apostle know best."

یہ حدیث شیئر کریں