صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ حیلوں کا بیان ۔ حدیث 1902

ہبہ اور شفعہ میں حیلہ کرنے کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص ایک ہزار درہم یا اس سے زائدہ کسی کوہبہ کردے اور وہ اس کے پاس برسوں تک رہ جائے پھر وہ حیلہ سے کام لے اور ہبہ کرنے والا اس کو واپس لے لے تو زکوۃ ان دونوں میں سے کسی پر واجب نہیں ان دونوں نے ہبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور زکوۃ کو ساقط کردیا۔

راوی: عبداللہ بن محمد , ہشام بن یوسف , معمر , زہری , ابوسلمہ , جابر بن عبد اللہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّفْعَةَ فِي کُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ فَإِذَا وَقَعَتْ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتْ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ الشُّفْعَةُ لِلْجِوَارِ ثُمَّ عَمَدَ إِلَی مَا شَدَّدَهُ فَأَبْطَلَهُ وَقَالَ إِنْ اشْتَرَی دَارًا فَخَافَ أَنْ يَأْخُذَ الْجَارُ بِالشُّفْعَةِ فَاشْتَرَی سَهْمًا مِنْ مِائَةِ سَهْمٍ ثُمَّ اشْتَرَی الْبَاقِيَ وَکَانَ لِلْجَارِ الشُّفْعَةُ فِي السَّهْمِ الْأَوَّلِ وَلَا شُفْعَةَ لَهُ فِي بَاقِي الدَّارِ وَلَهُ أَنْ يَحْتَالَ فِي ذَلِکَ

عبداللہ بن محمد، ہشام بن یوسف، معمر، زہری، ابوسلمہ، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شفعہ ہر اس چیز میں مقرر فرمایا جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو، جب حد بندی ہوگئی اور راستے پھیر دئیے گئے تو اس صورت میں شفعہ نہیں ہے اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ شفعہ پڑوسیوں کے لئے ہے پھر اپنی ہی پیش کی ہوئی دلیل کو باطل قرار دیا اور کہا کہ اگر کوئی شخص مکان خریدے اور اس کو خطرہ ہو کہ پڑوسی شفعہ کی بنا پر لے لے گا چنانچہ اس نے اس مکان کے سو حصوں میں سے ایک حصہ خرید لیا، پھر اس کے باقی کو خرید لیا اور پڑوسی کے لئے شفعہ کا حق پہلے حصے میں ہے باقی گھر میں اس کوشفعہ کا حق نہیں تو اس خریدار کیلئے اسی طرح کا حیلہ کرنے کا اختیار ہے۔

Narrated Jabir bin 'Abdullah:
The Prophet has decreed that preemption is valid in all cases where the real estate concerned has not been divided, but if the boundaries are established and the ways are made, then there is no preemption. A man said, "Preemption is only for the neighbor," and then he makes invalid what he has confirmed. He said, "If someone wants to buy a house and being afraid that the neighbor (of the house) may buy it through preemption, he buys one share out of one hundred shares of the house and then buys the rest of the house, then the neighbor can only have the right of preemption for the first share but not for the rest of the house; and the buyer may play such a trick in this case."

یہ حدیث شیئر کریں