صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ حیلوں کا بیان ۔ حدیث 1906

عامل کا حیلہ کرنا تاکہ اس کو ہدیہ بھیجاجائے

راوی: ابونعیم , سفیان , ابراہیم بن میسرہ , عمرو بن شرید , ابورافع

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنْ اشْتَرَی دَارًا بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَحْتَالَ حَتَّی يَشْتَرِيَ الدَّارَ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَيَنْقُدَهُ تِسْعَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ وَتِسْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ وَيَنْقُدَهُ دِينَارًا بِمَا بَقِيَ مِنْ الْعِشْرِينَ الْأَلْفَ فَإِنْ طَلَبَ الشَّفِيعُ أَخَذَهَا بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَإِلَّا فَلَا سَبِيلَ لَهُ عَلَی الدَّارِ فَإِنْ اسْتُحِقَّتْ الدَّارُ رَجَعَ الْمُشْتَرِي عَلَی الْبَائِعِ بِمَا دَفَعَ إِلَيْهِ وَهُوَ تِسْعَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ وَتِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ دِرْهَمًا وَدِينَارٌ لِأَنَّ الْبَيْعَ حِينَ اسْتُحِقَّ انْتَقَضَ الصَّرْفُ فِي الدِّينَارِ فَإِنْ وَجَدَ بِهَذِهِ الدَّارِ عَيْبًا وَلَمْ تُسْتَحَقَّ فَإِنَّهُ يَرُدُّهَا عَلَيْهِ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ قَالَ فَأَجَازَ هَذَا الْخِدَاعَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْعُ الْمُسْلِمِ لَا دَائَ وَلَا خِبْثَةَ وَلَا غَائِلَةَ

ابونعیم، سفیان، ابراہیم بن میسرہ، عمرو بن شرید، حضرت ابورافع سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پڑوسی کو شفعہ کا زیادہ حق ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص ایک گھر بیس ہزار درہم میں خریدنا چاہتا ہے تو اس طرح حیلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ نو ہزار نوسو درہم نقد دے دے اور بیس ہزار میں سے باقی کے عوض ایک دینار دے دے۔ اگر اس کا مطالبہ کرے تو اس کو بیس ہزار میں لینا پڑے گا ورنہ گھر ملنے کی کوئی صورت نہیں۔ پھر اگر وہ مکان بائع (بچنے والا) کے سوا کسی اور آدمی کا حق کا نکلا تو خریدار بائع (بچنے والا) سے جو کچھ اس نے اس کو دیا ہے وہ واپس لے لے (یعنی نوہزار نوسو درہم اور ایک دینار) اس لئے کہ بیچی ہوئی چیز کا جب اصل مستحق نکل آیا تو دینار کی تجارت جو صرف ایک زیادتی تھی باطل ہوگئی اور خریدار نے اس مکان میں کوئی عیب دیکھا اور اس مکان کا کوئی مستحق بھی نہ نکلا تو مشتری (خریدنے والا) بیس ہزار درہم کے بدلے بائع (بچنے والا) کو مکان واپس دے سکتا ہے۔ (امام بخاری) نے کہا کہ بعض لوگوں نے اس طرح کی دھوکہ دہی کو مسلمانوں میں جائز قرار دیا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کی خرید و فروخت میں نہ بیماری ہوتی ہے اور نہ بیع کو ناجائز کرنے والی کوئی چیز ہوتی ہے اور نہ کسی کا نقصان ہوتا ہے۔

Narrated Abu Rafi':
The Prophet said, "The neighbor has more right to be taken care of by his neighbor (than anyone else)." Some men said, "If one wants to buy a house for 20,000 Dirhams then there is no harm to play a trick to deprive somebody of preemption by buying it (just on paper) with 20,000 Dirhams but paying to the seller only 9,999 Dirhams in cash and then agree with the seller to pay only one Dinar in cash for the rest of the price (i.e. 10,001 Dirhams). If the preemptor offers 20,000 Dirhams for the house, he can buy it otherwise he has no right to buy it (by this trick he got out of preemption). If the house proves to belong to somebody else other than the seller, the buyer should take back from the seller what he has paid, i.e., 9,999 Dirhams and one Dinar, because if the house proves to belong to somebody else, so the whole bargain (deal) is unlawful. If the buyer finds a defect in the house and it does not belong to somebody other than the seller, the buyer may return it and receive 20,000 Dirhams (instead of 9999 Dirham plus one Dinar) which he actually paid.' Abu 'Abdullah said, "So that man allows (some people) the playing of tricks amongst the Muslims (although) the Prophet said, 'In dealing with Muslims one should not sell them sick (animals) or bad things or stolen things."

یہ حدیث شیئر کریں