صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ احکام کا بیان ۔ حدیث 2076

مہر کئے ہوئے خط پر گواہی اور اس کے جائز ہونے کا بیان۔
اور حاکم کا اپنے عامل اور قاضی کا دوسرے قاضی کے پاس خط لکھنے کا بیان اور بعض نے کہا کہ حاکم کا لکھنا صرف حدود میں جائز ہے پھر کہتے ہیں اگر قتل خطاء ہو تو جائز ہے اس لئے کہ یہ ان کے خیال میں مال کامعاملہ ہے ، حالانکہ جب قتل ثابت ہوجائے تویہ بھی مال کامعاملہ ہوجاتاہے، اس لئے خطاء اور عمدا دونوں یکساں ہیں اور حضرت عمر نے اپنے عامل کو حدود کے متعلق لکھ بھیجا اور حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑے جانے کے متعلق لکھ بھیجا اور ابراہیم نے کہا کہ قاضی کا قاضی کولکھنا جائز ہے جبکہ وہ خط اور مہر کو پہچانتا ہو اور شعبی مہر کیے ہوئے خط کو جاری کرتے تھے ، جواس میں لکھا ہوتا اور حضرت ابن عمر سے بھی یہی منقول ہے ۔ اور معاویہ بن عبدالکریم ثقفی نے بیان کیا کہ میں عبدالملک بن یعلی قاضی بصرہ اور ایاس بن معاویہ حسن و ثمامہ بن عبداللہ بن انس ، بلال بن ابی بردہ و عبداللہ بن بریدہ اسلمی اور عامر بن عبیدہ اور عباد بن منصور کے پاس موجود رہا، یہ لوگ گواہی کی موجودگی کے بغیر قاضیوں کے لکھے ہوئے کو جاری کردیتے تھے ، پس اگر وہ شخص جس کے پاس خط لایا گیا کہے کہ وہ جھوٹا ہے تو اس کو کہا جائے گا کہ تو جا اور اس سے نکلنے کاراستہ ڈھونڈ اور سب سے پہلے جس نے قاضی کی تحریر پر گواہ طلب کیا وہ ابن ابی لیلی اور سوار بن عبداللہ بن محرز نے بیان کیا کہ میں قاضی بصرہ موسی بن انس کی طرف ایک تحریر لایا اور میں نے ان کے پاس گواہ قائم کئے میرا فلاں کے پاس اتنا مال ہے اس وقت وہ شخص کوفہ میں تھا میں قاسم بن عبدالرحمن کے پاس تحریر لایا تو اس کو انہوں نے جاری کردیا اور حسن اور ابو قلابہ نے مکروہ سمجھا کہ کسی وصیت کے گواہ بنیں جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس میں کیا لکھا ہے اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ شاید اس میں برائی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کے نام لکھ بھیجا کہ یا تو اپنے ساتھی کی دیت دو یا لڑائی کے لئے تیار رہو اور زہری پردہ کے پیچھے والی عورت پر گواہی دینے کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر تم اس کی آواز پہچانتے ہو توگواہ ہوجاؤ ورنہ گواہی نہ دو۔

راوی: محمد بن بشار , غندر , قتادہ , انس بن مالک

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَکْتُبَ إِلَی الرُّومِ قَالُوا إِنَّهُمْ لَا يَقْرَئُونَ کِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا فَاتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی وَبِيصِهِ وَنَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ

محمد بن بشار، غندر، قتادہ، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیصر روم کو خط لکھنا چاہا تو لوگوں نے کہا کہ وہ لوگ صرف وہی خط پڑھتے ہیں جو مہر کیا ہوا ہو، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی گویا کہ میں اس کی چمک دیکھ رہا تھا اور اس پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نقش کیا ہوا تھا (یہی انگوٹھی مہر کا کام دیتی تھی)

Narrated Anas bin Malik:
When the Prophet intended to write to the Byzantines, the people said, "They do not read a letter unless it is sealed (stamped)." Therefore the Prophet took a silver ring—-as if I am looking at its glitter now—-and its engraving was: 'Muhammad, Apostle of Allah'

یہ حدیث شیئر کریں