صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ آرزو کرنے کا بیان ۔ حدیث 2158

اذان و نماز اور روزہ اور فرائض واحکام میں سچے آدمی کی خبر واحد کے جائز ہونے کا بیان اور اللہ تعالی کا قول کہ پس کیوں نہیں ان کے ہر ایک فرقہ میں سے کچھ لوگ چلتے ، تاکہ دین میں سمجھ حاصل کریں اور تاکہ وہ اپنی قوم ڈرائیں، جب کہ وہ ان لوگوں کے پاس واپس آئیں، شاید کہ وہ لوگ ڈریں، اور ایک آدمی کو بھی طائفہ کہاجاتا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ اگر مومنین کی دوجماعتیں جنگ کریں چنانچہ اگردو آدمی جنگ کریں ، تووہ اس آیت کے مفہوم میں داخل ہوںگے ، اس لئے کہ اللہ نے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو، اور اس امر کا بیان کہ کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امراء یکے بعد دیگرے روانہ فرمائے تاکہ ان میں سے ایک اگر غلطی کرے تو وہ سنت کی طرف پھیر دیاجائے۔

راوی: یحیی , وکیع , اسرائیل , ابواسحاق , براء

حَدَّثَنَا يَحْيَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْبَرَائِ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ صَلَّی نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا وَکَانَ يُحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَی الْکَعْبَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِي السَّمَائِ فَلَنُوَلِّيَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوُجِّهَ نَحْوَ الْکَعْبَةِ وَصَلَّی مَعَهُ رَجُلٌ الْعَصْرَ ثُمَّ خَرَجَ فَمَرَّ عَلَی قَوْمٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ هُوَ يَشْهَدُ أَنَّهُ صَلَّی مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ قَدْ وُجِّهَ إِلَی الْکَعْبَةِ فَانْحَرَفُوا وَهُمْ رُکُوعٌ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ

یحیی ، وکیع، اسرائیل، ابواسحاق، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے سولہ یا سترہ مہینے تک نماز پڑھی اور پسند کرتے تھے کہ کعبہ کی طرف رخ کرتے، چنانچہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، کہ بے شک ہم آسمان کی طرف آپ کے بار بار منہ اٹھانے کو دیکھتے ہیں پس ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جس سے آپ خوش ہو جائیں، چنانچہ آپ نے کعبہ کی طرف رخ کر لیا، اور آپ کے ساتھ، ایک شخص نے عصر کی نماز پڑھی پھر وہ نکلا اور انصار کی جماعت پر گزر ہوا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیساتھ نماز پڑھی، اور آپ نے کعبہ کی طرف منہ کیا ہے، چنانچہ وہ پھر گئے اس وقت عصر کی نماز پڑھ رہے تھے، اور رکوع کی حالت میں تھے۔

Narrated Al-Bara':
When Allah's Apostle arrived at Medina, he prayed facing Jerusalem for sixteen or seventeen months but he wished that he would be ordered to face the Ka'ba. So Allah revealed: —
'Verily! We have seen the turning of your face towards the heaven; surely we shall turn you to a prayer direction (Qibla) that shall please you.' (2.144) Thus he was directed towards the Ka'ba. A man prayed the 'Asr prayer with the Prophet and then went out, and passing by some people from the Ansar, he said, "I testify. that I have prayed with the Prophet and he (the Prophet) has prayed facing the Ka'ba." Thereupon they, who were bowing in the 'Asr prayer, turned towards the Ka'ba.

یہ حدیث شیئر کریں