سنن ابوداؤد ۔ جلد سوم ۔ کھانے پینے کا بیان ۔ حدیث 361

دوسرے کے مال میں سے نہ کھانے میں جو حرج تھا اس کے منسوخ ہونے کا بیان

راوی: احمد بن محمد , علی بن حسین , بن واقد , یزید , عکرمہ , ابن عباس

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ فَکَانَ الرَّجُلُ يَحْرَجُ أَنْ يَأْکُلَ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ النَّاسِ بَعْدَ مَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَنَسَخَ ذَلِکَ الْآيَةُ الَّتِي فِي النُّورِ قَالَ لَيْسَ عَلَيْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْکُلُوا مِنْ بُيُوتِکُمْ إِلَی قَوْلِهِ أَشْتَاتًا کَانَ الرَّجُلُ الْغَنِيُّ يَدْعُو الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِهِ إِلَی الطَّعَامِ قَالَ إِنِّي لَأَجَّنَّحُ أَنْ آکُلَ مِنْهُ وَالتَّجَنُّحُ الْحَرَجُ وَيَقُولُ الْمِسْکِينُ أَحَقُّ بِهِ مِنِّي فَأُحِلَّ فِي ذَلِکَ أَنْ يَأْکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَأُحِلَّ طَعَامُ أَهْلِ الْکِتَابِ

احمد بن محمد، علی بن حسین بن واقد، یزید، عکرمہ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ قرآن کریم کی آیت (لَا تَاْكُلُوْ ا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّا اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ) 4۔ النساء : 29) کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے امول کو ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ۔ الاّ یہ کہ تجارت کے ذریعہ ہو، آپس میں ایک دوسرے کی رضا مندی کیساتھ۔ اس کے نزول کے بعد آدمی کسی دوسرے کے ہاں کھانا کھانے کو بھی گناہ سمجھتا تھا تو اس حکم کو سورت نور کی آیت نے منسوخ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر سے یا اپنی ماں کے گھر سے یا اپنے بھائی کے گھر سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا جس گھر کی چابیاں کے تم مالک ہو یا اپنے دوست کے گھر سے تم پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ کہ سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔ اس آیت کے نزول سے قبل لوگوں کا معاملہ یہ تھا کہ ایک مالددار دعوت کرتا اپنے گھر والوں کی کھانے کی تو وہ مدعو کہتا کہ مجھے گناہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مال سے کھاویں۔ اور وہ یہ کہتا کہ اس کھانے کے زیادہ حقدار مسکین و فقیر لوگ ہیں، تو اس مذکورہ سورت نور کی آیت میں یہ حلال ہو گیا کہ وہ کھائیں ہر وہ چیز جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور اہل کتاب کا کھانا بھی حلال کیا گیا ہے۔

Narrated Abdullah Ibn Abbas:
When the verse: "O ye who believe! eat not up your property among yourselves in vanities, but let there be amongst you traffic and trade by mutual good will" was revealed, a man thought it a sin to eat in the house of another man after the revelation of this verse.
Then this (injunction) was revealed by the verse in Surat an-Nur: "No blame on you whether you eat in company or separately."
When a rich man (after revelation) invited a man from his people to eat food in his house, he would say: I consider it a sin to eat from it, and he said: a poor man is more entitled to it than I. The Arabic word tajannah means sin or fault. It was then declared lawful to eat something on which the name of Allah was mentioned, and it was made lawful to eat the flesh of an animal slaughtered by the people of the Book.

یہ حدیث شیئر کریں