سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ جنائز کے متعلق احادیث ۔ حدیث 1851

کس قسم کا رونا ممنوع ہے؟

راوی: عتبہ بن عبداللہ بن عتبہ , مالک , عبداللہ بن عبداللہ بن جابر بن عتیک

أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيکٍ أَنَّ عَتِيکَ بْنَ الْحَارِثِ وَهُوَ جَدُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو أُمِّهِ أَخْبَرَهُ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَتِيکٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ثَابِتٍ فَوَجَدَهُ قَدْ غُلِبَ عَلَيْهِ فَصَاحَ بِهِ فَلَمْ يُجِبْهُ فَاسْتَرْجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قَدْ غُلِبْنَا عَلَيْکَ أَبَا الرَّبِيعِ فَصِحْنَ النِّسَائُ وَبَکَيْنَ فَجَعَلَ ابْنُ عَتِيکٍ يُسَکِّتُهُنَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُنَّ فَإِذَا وَجَبَ فَلَا تَبْکِيَنَّ بَاکِيَةٌ قَالُوا وَمَا الْوُجُوبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْمَوْتُ قَالَتْ ابْنَتُهُ إِنْ کُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ تَکُونَ شَهِيدًا قَدْ کُنْتَ قَضَيْتَ جِهَازَکَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَهُ عَلَيْهِ عَلَی قَدْرِ نِيَّتِهِ وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ قَالُوا الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ وَالْغَرِيقُ شَهِيدٌ وَصَاحِبُ الْهَدَمِ شَهِيدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ وَصَاحِبُ الْحَرَقِ شَهِيدٌ وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدَةٌ

عتبہ بن عبداللہ بن عتبہ، مالک، عبداللہ بن عبداللہ بن جابر بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن ثابت کی مزاج پرسی کو تشریف لائے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے اوپر مرض کا غلبہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو آواز سے پکارا انہوں نے جواب نہیں دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اِنَّا ِللہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون اور ارشاد فرمایا تمہارے اوپر ہم مغلوب ہوگئے اے ابوالربیع (ابوالربیع حضرت عبداللہ بن ثابت کی کنیت ہے) مطلب یہ ہے کہ تقدیر کا لکھا ہوا ہمارے ارادہ پر غالب ہوگیا ہم تو تمہاری زندگی کی خواہش رکھتے ہیں لیکن تقدیر ہمارے ارادہ پر غالب آگئی اور تمہاری تقدیر میں موت ہے۔ یہ بات سن کر خواتین نے چیخ ماری اور وہ رونے لگ گئیں۔ یہ دیکھ کر حضرت ابن عتیک ان کو خاموش کرنے لگ گئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم ان کو چھوڑ دو جس وقت(موت) لازم ہو جائے تو اس وقت کوئی بھی نہ رویا کرے۔ لوگوں نے عرض کیا لازم ہونے سے کیا مراد ہے؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ موت کا آنا یہ سن کر ان کی صاحبزادی نے فرمایا کہ مجھ کو توقع تھی کہ تم کو شہادت کا مقام حاصل ہوگا اس لئے کہ تم سامان جہاد کی تیاری کر چکے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان کو نیت کے مطابق ثواب عطاء فرمایا تم کس چیز کو شہادت سمجھ رہے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اللہ کے راستہ میں قتل کئے جانے کو۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شہادت سات قسم کی ہوتی ہے اللہ کے راستہ میں قتل کئے جانے کے علاوہ (اور شہادت کی تفصیل یہ ہے) جو شخص طاعون میں انتقال کر جائے تو وہ شخص شہید ہے اور جو شخص پیٹ کے مرض میں مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو شخص پانی میں غرق ہو کر مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو شخص کسی عمارت وغیرہ میں دب کر مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو کوئی مرض ذات الجنب میں مرے وہ شہید ہے جو شخص آگ سے جل کر مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو خاتون بچہ کی ولادت میں مر جائے وہ شہید ہے یا بچہ کی ولادت کے بعد مر جائے تو وہ شہید ہے۔

It was narrated from Ibn ‘Umar, from ‘Umar, that the Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: “The deceased is punished due to the weeping of his family for him.” (Sahih)

یہ حدیث شیئر کریں