جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 892

باب سورت بقرہ کے متعلق

راوی: عبد بن حمید , جعفربن عون , اعمش , ابوصالح , ابوسعید

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْعَی نُوحٌ فَيُقَالُ هَلْ بَلَّغْتَ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيُدْعَی قَوْمُهُ فَيُقَالُ هَلْ بَلَّغَکُمْ فَيَقُولُونَ مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيرٍ وَمَا أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ فَيُقَالُ مَنْ شُهُودُکَ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ قَالَ فَيُؤْتَی بِکُمْ تَشْهَدُونَ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ فَذَلِکَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَی وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُهَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَيَکُونَ الرَّسُولُ عَلَيْکُمْ شَهِيدًا وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَهُ

عبد بن حمید، جعفربن عون، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن حضرت نوح علیہ السلام کو بلایا اور پوچھا جائے گا کہ کیا آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ وہ کہیں گے ہاں۔ پر ان کی قوم کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ کیا نوح علیہ السلام نے تمہیں پیغام پہنچایا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کوئی ڈرانے والا کوئی اور نہیں آیا۔ پھر نوح علیہ السلام سے پوچھا جائے گا کہ آپ کے گواہ کون ہیں۔ وہ عرض کریں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت۔ پھر تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا تھا۔ یہی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر ہے "وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا "۔ (اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم پر گواہ ہوں) وسط سے مراد عدل ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ محمد بن بشار بھی جعفر بن عون سے اور وہ اعمش سے اسی کی مانند روایت کرتے ہیں۔

Sayyidina Abu Sa’eed (RA) reported that Allah’s Messenger (SAW) said: Nuh (AS) will be called (on the Day of Resurrection) and asked, “Had you conveyed (My Message)?” He will say, “Yes.” His people will be summoned and asked, “Did he convey to you?” They will say, “No warner came to us. No one came to us.” So, it will be said, “Who is your witness?” He will say, “Muhammad and his ummah.” So, you people will be summoned and you will testify that he did convey. This is as the saying of Allah, the Blessed and Exalted: “Thus, have We made of you an Ummat justly balanced, that ye might be witnesses over the nations, and the Messenger a witness over yourselves.” (2:143) And (wast) mid-most is ‘justly balanced’.

یہ حدیث شیئر کریں