موطا امام مالک ۔ جلد اول ۔ ترکے کی تقسیم کے بیان میں ۔ حدیث 1399

نانی اور دادی کی میراث کا بیان

راوی:

قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ وَالَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا أَنَّ الْجَدَّةَ أُمَّ الْأُمِّ لَا تَرِثُ مَعَ الْأُمِّ دِنْيَا شَيْئًا وَهِيَ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ يُفْرَضُ لَهَا السُّدُسُ فَرِيضَةً وَأَنَّ الْجَدَّةَ أُمَّ الْأَبِ لَا تَرِثُ مَعَ الْأُمِّ وَلَا مَعَ الْأَبِ شَيْئًا وَهِيَ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ يُفْرَضُ لَهَا السُّدُسُ فَرِيضَةً فَإِذَا اجْتَمَعَتْ الْجَدَّتَانِ أُمُّ الْأَبِ وَأُمُّ الْأُمِّ وَلَيْسَ لِلْمُتَوَفَّى دُونَهُمَا أَبٌ وَلَا أُمٌّ قَالَ مَالِك فَإِنِّي سَمِعْتُ أَنَّ أُمَّ الْأُمِّ إِنْ كَانَتْ أَقْعَدَهُمَا كَانَ لَهَا السُّدُسُ دُونَ أُمِّ الْأَبِ وَإِنْ كَانَتْ أُمُّ الْأَبِ أَقْعَدَهُمَا أَوْ كَانَتَا فِي الْقُعْدَدِ مِنْ الْمُتَوَفَّى بِمَنْزِلَةٍ سَوَاءٍ فَإِنَّ السُّدُسَ بَيْنَهُمَا نِصْفَانِ قَالَ مَالِك وَلَا مِيرَاثَ لِأَحَدٍ مِنْ الْجَدَّاتِ إِلَّا لِلْجَدَّتَيْنِ لِأَنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَّثَ الْجَدَّةَ ثُمَّ سَأَلَ أَبُو بَكْرٍ عَنْ ذَلِكَ حَتَّى أَتَاهُ الثَّبَتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ وَرَّثَ الْجَدَّةَ فَأَنْفَذَهُ لَهَا ثُمَّ أَتَتْ الْجَدَّةُ الْأُخْرَى إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ لَهَا مَا أَنَا بِزَائِدٍ فِي الْفَرَائِضِ شَيْئًا فَإِنْ اجْتَمَعْتُمَا فَهُوَ بَيْنَكُمَا وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا قَالَ مَالِك ثُمَّ لَمْ نَعْلَمْ أَحَدًا وَرَّثَ غَيْرَ جَدَّتَيْنِ مُنْذُ كَانَ الْإِسْلَامُ إِلَى الْيَوْمِ

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ نانی ماں کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی البتہ اگر ماں نہ ہو تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اور دادی ماں کے یا باپ کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی جب ماں باپ نہ ہوں تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اگر نانی اور دادی دونوں ہوں اور میت کے ماں باپ جو نانی دادی سے زیادہ قریب ہیں نہ ہوں تو ان میں سے نانی اگر میت کے ساتھ زیادہ قریب ہوگی تو اسی کو سدس (چھٹا حصہ) ملے گا۔ اور جو دادی زیادہ قریب ہوگی یا دونوں برابر ہوں تو سدس میں دونوں شریک ہوں گے۔
کہا مالک نے میراث کسی کے واسطے نہیں ہے دادیوں اور نانیوں میں سے مگر ماں کی ماں کو اگرچہ کتنی ہی دور ہو جائے۔ ان کے سوا اور نانیوں دادیوں کو میراث (دینا مقرر) نہیں ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکہ دلایانانی کو پھر ابوبکرنے بھی اس کا پوچھا جب ان کو بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نانی کو ترکہ دلایا انہوں نے دلایا بعد اس کے دادی حضرت عمر کے وقت میں آئی آپ نے فرمایا میں فرائض کو بڑھا نہیں سکتا لیکن اگر تو بھی ہو اور نانی بھی ہو تو دونوں سدس (چھٹا) کو بانٹ لیں اور جو کوئی تم میں سے تنہا ہو تو وہ پورا سدس (چھٹا) لے لے۔

Malik said, "The generally agreed on way of doing things among us in which there is no dispute and which I saw the people of knowledge in our city doing, is that the maternal grandmother does not inherit anything at all with the mother. Outside of that, she is given a sixth as a fixed share. The paternal grandmotherdoes not inherit anything along with the mother or the father. Outside of that she is given a sixth as a fixed share." If both the paternal grandmother and maternal grandmother are alive, and the deceased does not have a father or mother outside of them, Malik said,."I have heard that if the maternal grandmother is the nearest of the two of them, then she has a sixth instead of the paternal grandmother. If the paternal grandmother is nearer, or they are in the same position in relation to the deceased, the sixth is divided equally between them."

یہ حدیث شیئر کریں