مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ تراویح کا بیان ۔ حدیث 1293

نماز ضحی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول

راوی:

وَعَنْ مُّوَرِّقِ ِالْعِجْلِیِّ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ تُصَلِّی الضُّحٰی قَالَ لَا قُلْتُ فَعُمَرُ قَالَ لَا قُلْتُ فَاَبُوْ بَکْرٍ قَالَ لَا قُلْتُ فَالنَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا اِخَالُہُ۔ (صحیح البخاری)

" اور حضرت مورق عجلی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ " کیا آپ ضحی کی نماز پڑھتے ہیں " انہوں نے فرمایا کہ " نہیں' ' میں نے کہا کہ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؟ انہوں نے فرمایا کہ " وہ بھی نہیں پڑھتے تھے " پھر میں نے پوچھا کہ " حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؟" انہوں نے فرمایا کہ " وہ بھی نہیں پڑھتے تھے۔" پھر میں نے پوچھا کہ " اچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ انہوں نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں پڑھتے ۔" (صحیح البخاری )

تشریح
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نماز ضحی پڑھنے کی جو نفی فرمائی اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ انکار اس بات پر مبنی ہے کہ آپ مسجد میں ضحی کی نماز پڑھتے تھے یا حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک اور اس نماز کے پڑھنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر مطلع نہیں ہونگے یا پھر یہ کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مطلقاً نفی نہیں فرمائی۔ بلکہ ان کا مطلب یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو مستقل طور پر ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے تاکہ یہ نماز فرض قرار نہ دیدی جائے۔
بہر حال اس نماز کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا اور دوسروں کے لئے اس کے پڑھنے پر تاکید کرنا بہت روایتوں سے ثابت ہے ۔ اس لئے اس نماز کے ثبوت میں اس روایت سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
ملا حنفی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس نماز کے فرض ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہیں رہا اس لئے یہ کہنا زیادہ مناسب اور بہتر ہے کہ نماز مسلمانوں کا اس نماز پر مداومت کرنا ( یعنی ہمیشہ پابندی کے ساتھ پڑھنا ) مستحب ہے۔ چنانچہ اکثر علماء اور مشائخ کا یہ مسلک ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں