مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 37

کلمہ تو حید نجات کا ذریعہ

راوی:

وَعَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ اِنَّ رِجَالًا مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم حِیْنَ تُوُفِّیَ حَزِنُوْا عَلَیْہٖ حَتَّی کَادَ بَعْضُھُمْ یُوَسْوِسُ قَالَ عُثْمَانْ وَکُنْتُ بَعْضَھُمْ فَبَیْنَا اَنَا جَالِسٌ مَرَّ عَلَیَّ عُمَرَوَسَلَّمَ فَلَمْ اَشْعُرْبِہٖ فَاشْتَکَی عُمَرُاِلَی اَبِی بَکْرٍ ثُمَّ اَقْبَلَا حَتَّی سَلَّمَا عَلَیَّ جَمِیْعًا فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ مَا حَمَلَکَ عَلَی اَنْ لَا تَرُدَّ عَلَی اَخِیْکَ عُمَرَ سَلَامَہُ قُلْتُ مَا فَعَلْتُ فَقَالَ عُمَرُ بَلٰی وَاﷲِ لَقَدْ فَعَلْتَ قَالَ قُلْتُ وَاﷲِ مَاشَعَرْتُ اَنَّکَ مَرَرْتَ وَلَا سَلَمْتَ قَالَ اَبُوْبَکْرٍ صَدَقَ عُثْمَانُ قَدْ شَغَلَکَ عَنْ ذٰلِکَ اَمْرٌ فَقُلْتُ اَجَلْ قَالَ مَا ھُوَ قُلْتُ تَوَفِّیَ اﷲَ تَعَالٰی نَبِیَّہُ صلی اللہ علیہ وسلم قَبْلَ اَن نَّسْاَ لَہُ عَنْ نَّجَاۃِ ھٰذَا الْاَ مْرِ قَالَ اَبُوْبَکْرٍ قَدْ سَاَلْتُہُ عَنْ ذٰلِکَ فَقُمْتُ اِلَیْہِ وَقُلْتُ لَہُ بِاَ بِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ اَنْتَ اَحَقُّ بِھَا قَالَ اَبُوْبَکْرٍ قُلْتُ یاَ رَسُوْلَ اﷲِ مَانَجَاۃُ ھٰذَا الْاَمْرِ فَقَاَل رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلممَنْ قَبِلَ مِنِّی الْکَلِمٰۃَ الَّتِیْ عَرَضْتُ عَلٰی عَمِّیْ فَرَدَّھَافَھِی لَہُ نَجَاۃٌ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)

" اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو صحابہ کی ایک جماعت پر رنج و حزن کا اتنا غلبہ تھا کہ ان میں بعض لوگوں کے بارہ میں تو یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں شک و شبہ میں گرفتار نہ ہو جائیں (یعنی اس واہمہ کا شکار ہو جائیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو دین و شریعت کا قصہ بھی تمام ہو گیا) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ چنانچہ (اس عظیم حادثہ سے سخت پریشان خیال اور غم و اندوہ کا بت بنا) میں بیٹھا تھا کہ (اسی حالت میں) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس سے گزرے اور مجھ کو سلام کیا، (حو اس باختہ ہونے کی وجہ سے) مجھے پتہ نہیں چلا (کہ وہ کب میرے پاس سے گزرے اور کب سلام کیا) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کی شکایت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ میرے پاس آئے اور دونوں نے مجھے سلام کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے پوچھا ، تم نے اپنے بھائی عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا؟ میں نے کہا! ایسا نہیں ہوا۔ (یعنی مجھے اس کا علم نہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر مجھے سلام کیا ہو اور میں نے جواب نہ دیا ہو) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا! واللہ مجھے قطعًا اس کا احساس نہیں کہ آپ میرے پاس آئے تھے اور نہ ہی آپ نے سلام کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سچ فرماتے ہیں، (لیکن معلوم ہوتا ہے کہ) کسی خاص وجہ نے تمہیں اس سے باز رکھا ( کہ نہ تو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کی تمہیں خبر ہوئی اور نہ تم ان کے سلام کا جواب دے سکے) میں نے کہا! ہاں ہو سکتا ہے، انہوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ میں نے کہا (سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہی کیا کم صبر آزما تھی کہ اب یہ غم بھی کھائے لیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے لیکن ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت نہ کر سکے کہ اس معاملہ یعنی عبادت میں وسوسوں کا پیدا ہونا، شیطان کا بہکانا، یا دوزخ کی آگ) سے نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا !(تم غم نہ کھاؤ) میں اس بارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پوچھ چکا ہوں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ) میں ( بے اختیار) کھڑا ہوگیا اور بولا : آپ پر میرے ماں باپ قربان، واقعی آپ ہی (آنحضور سے کمال رکھنے اور حصول علم کے غلبہ شوق کی وجہ سے ) اس بارہ میں سوال کرنے کے لئے لائق تر تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا! میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس معاملہ میں نجات کی کیا صورت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس آدمی نے (خلوص دل کے ساتھ) ہم سے وہ کلمہ تو حید قبول کر لیا جسے میں نے چچا ابوطالب کے سامنے پیش کیا تھا اور انہوں نے اس کو قبول نہیں کیا تھا تو وہ کلمہ اس آدمی کی نجات کا ضامن ہوگا۔" (مسند احمد بن حنبل)

تشریح
گویا کلمہ تو حید کے یہ فضائل و برکات ہیں کہ جس آدمی نے اس کلمہ کو صدق دل سے اور پختہ اعتقاد کے ساتھ قبول کر لیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کر کے دین کے فرائض پر عمل کیا تو وہ کلمہ آخرت میں اس کی نجات کا ضامن ہوگا اور کلمہ گو اس کی برکتوں سے وہاں کی سعادتوں سے نوازا جائے گا اور اگر اس کلمہ کا ورد رکھا جائے اور اس کو اکثر پڑھا جاتا رہے اور اس کا ذکر پابندی سے رہے تو دنیا میں بھی اس کی برکت اس طرح ظاہر ہوگی کہ اس کلمہ کی بدولت فکر و خیال اور عمل پر شیطان کو تسلط حاصل نہیں ہو پائے گا کہ نہ واہمے اور وسوسے پیدا ہوں گے، نہ نماز و عبادت کے دوران خیالات بھٹکتے پھریں گے اور نہ دل و دماغ شکوک و شبہات کی آماجگاہ بنیں گے بلکہ اس مبارک ورد و ذکر سے ذات الہٰی کی معرفت حاصل ہوگی، آخرت سے لگاؤ ہوگا اور رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و تعلق کی خاص کیفیت پیدا ہوگی۔

یہ حدیث شیئر کریں