مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان۔ ۔ حدیث 546

نماز کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَآءِ قَالَ اَوْصَانِی خَلِیْلِیْ اَنْ لَّا تُشْرِکَ بِاﷲِ شَیْئًا وَاَنْ قُطِّعْتَ وَ حُرِّقْتَ وَ لَا تَتْرُکَ صَلَاۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَھَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ الزِّمَّۃُ وَلاَ تَشْرَبَ الخَمْرَ فَاِنَّھَا مِفْتَاحُ کُلٍّ شَرٍّ۔ (رواہ ابن ماجۃ)

" اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دوست (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) نے مجھے یہ وصیت (فرمائی تھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا خواہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تمہیں جلا کیوں نہ دیا جائے اور جان بوجھ کر فرض نماز نہ چھوڑنا جس نے قصدًا نماز چھوڑ دی تو اس سے ذمہ بری ہو گیا نیز کبھی شراب نہ پینا کیونکہ یہ ہر برائی کی کنجی ہے۔" (سنن ابن ماجہ)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو افضل بات کی تعلیم دی کہ اگر تم ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا بھی دیئے جاؤ تو شرک نہ کرنا، ورنہ تو جبر کی حالت میں جب کہ گردن تلوار کی زد میں ہو تو دل میں ایمان و ایقان کی پوری دولت لئے زبان سے کلمہ کفر ادا کرلینا جائز ہے۔ " ذمہ کے بری" ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے قصدًا نماز ترک کر دی تو گویا اس نے اسلام کے ایک بڑے اور بنیادی قانون و حکم سے بغاوت کی جس کی بناء پر اسلام کا عہد اس سے ختم ہوگیا اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ اس مطلب کی وضاحت کرنے کے بعد کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ازراہ تغلیظ یعنی نماز چھوڑنے والے کے لئے انتہائی تہدید اور تنبیہ ہے۔
یا پھر (اس سے ذمہ بری ہوا ) کی مراد یہ ہے کہ ایمان لانے اور اسلام کی اطاعت قبول کرنے کی وجہ سے اسلام نے اس کے جان و مال کی حفاظت کی جو ضمانت لی تھی اور اسلامی اسٹیٹ میں اسے جو امان حاصل تھا اب وہ نماز کے ترک کی وجہ سے اسلام کی امان اور ضمانت سے نکل گیا۔ شراب کو تمام برائیوں کی کنجی اس لے فرمایا گیا ہے کہ شراب بنیادی طور پر انسان کے دل و دماغ اور ذہن و فکر کو بالکل ماؤف کر دیتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شراب پینے والا آدمی جب نشہ کی وجہ سے اپنی عقل سے ہاتھ دھو لیتا ہے تو دنیا بھر کی برائیاں اس سے سرزد ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شراب کو ام الخبائث کہا گیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں