مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ پناہ مانگنے کا بیان ۔ حدیث 1006

چاند کے بے نور ہونے سے پناہ مانگو

راوی:

وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه و سلم نظر إلى القمر فقال : " يا عائشة استعيذي بالله من شر هذا فإن هذا هو الغاسق إذا وقب " . رواه الترمذي

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ عائشہ اللہ کی پناہ مانگو! اس چاند کی برائی سے کیونکہ یہ غاسق اندھیرا پھیلانے والا ہے جب بے نور ہو جائے۔ (ترمذی)

تشریح
قرآن مجید کی سورت آیت (قل اعوذ برب الفلق) میں جہاں اور کئی چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں ۔ غاسق اذا وقب کا بھی ذکر ہے یعنی پناہ مانگو اندھیرا پھیلانے والے کی برائی سے جب وہ بے نور ہو جائے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی نے غاسق اذا وقب کی وضاحت فرمائی کہ اس سے مراد چاند ہے جب وہ گہن میں آ جاتا ہے لہٰذا اس سے پناہ مانگنے کا سبب یہ ہے کہ اس کا گرہن میں آنا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ یہ بلاؤں کے نازل ہونے کا اشارہ دیتا ہے، چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ جب چاند کو گرہن لگتا تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لرزاں و ترساں اٹھ کھڑے ہوتے۔
لیکن اتنی بات ذہن نشین رہے کہ " بلاؤں کے نازل ہونے سے " وہ بلائیں اور حادثات مراد نہیں ہیں جو منجم یا بد عقیدہ لوگ کسوف و خسوف (چاند سورج کے گرہن لگنے ) کے سلسلہ میں بتاتے ہیں کیونکہ اہل اسلام کے نزدیک ان کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ اس سے مراد عبرت کے مواقع ہیں۔ مثلا جب چاند گرہن میں آتا ہے تو وہ ایک بڑی عبرت کا وقت ہوتا ہے جو ہر انسان کو احساس دلاتا ہے کہ جب چاند باوجود اپنی اس نورانیت کے اپنے نور کو کھو چکا ہے اور اس کے اپنے نور کی بقاء پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہے تو ایسا نہ ہو کہ میرے ایمان اور میرے عمل کا نور بھی جاتا رہے اسی اعتبار سے اس سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
اس حدیث سے تو معلوم ہوا کہ " غاسق اذا وقب" سے مراد گرہن میں آیا ہوا چاند ہے لیکن اکثر مفسرین نے آیت (من شر غاسق اذا وقب) کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد تاریک رات ہے ۔ و اللہ اعلم۔

یہ حدیث شیئر کریں