مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جامع دعاؤں کا بیان ۔ حدیث 1025

نعمت وعزت کی دعا

راوی:

وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا أنزل عليه الوحي سمع عند وجهه دوي كدوي النحل فأنل عليه يوما فمكثنا ساعة فسري عنه فاستقبل القبلة ورفع يديه وقال : " اللهم زدنا ولا تنقصنا وأكرمنا ولا تهنا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علينا وأرضنا وأرض عنا " . ثم قال : " أنزل علي عشر آيات من أقامهن دخل الجنة " ثم قرأ : ( قد أفلح المؤمنون )
حتى ختم عشر آيات . رواه أحمد والترمذي

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک منہ کی قریب شہد کی مکھی کی آواز کی مانند آواز سنی جاتی تھی چنانچہ ایک دن (ہمارے سامنے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی ہم تھوڑی دیر ٹھہرے رہے (یعنی ہم اس انتظار میں رہے کہ نزول وحی کی جو سختی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طاری ہے وہ ختم ہو جائے) جب سختی کی وہ کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا منہ قبلہ کی طرف کیا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر بارگاہ الٰہی میں یوں عرض رساں ہوئے۔ دعا (اللہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولا تہنا واعطنا ولا تحرمنا واٰثرنا ولا توثر علینا وارضنا وارض عنا)۔ اے اللہ! ہماری دنیاوی اور اخروی نعمتوں یا مسلمانوں کی تعداد میں زیادتی کر اور ان نعمتوں یا مسلمانوں میں کمی نہ کر ہمیں دیا میں حاجت روائی کے ساتھ اور عقبی میں بلندی درجات کے ذریعہ معزز بنا اور ہمیں ان چیزوں سے محروم رکھ کر ذلیل نہ کر ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرما اور ہمیں محروم نہ کر! ہمیں اپنی رحمت و عنایت کے ذریعہ برگزیدہ بنا اور ہم پر غیروں اپنے لطف و کرم کے ذریعہ برگزیدہ نہ بنا یا کہ ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب نہ کر ہمیں اپنی قضاء قدر پر صبر و شکر کی توفیق عطا فرما کر راضی رکھ اور تو ہی ہماری تھوڑی سی بھی عبادت و طاعت پر ہم سے راضی ہو پھر آپنے فرمایا ابھی مجھ پر دس آیتیں نازل ہوئی ہیں جو شخص ان پر عمل کرتا رہے وہ جنت میں نیکیوں کے ساتھ داخل ہو گا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ( قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ) 23۔ المومنون : 10-1) دس آیتوں تک پڑھی۔ (احمد، ترمذی)

تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تھی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کلام الٰہی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچاتے تھے تو صحابہ حضرت جبرائیل کی آواز کو سنتے تو تھے مگر اسے سمجھ نہیں پاتے تھے جیسا کہ شہد کی مکھی کی آواز سنی تو جاتی ہے مگر سمجھ میں نہیں آتی اسی لئے حضرت جبرائیل کی اس آواز کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہد کی مکھی کی آواز سے مشابہت دی۔ وہ دس آیتیں اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی تھیں اور جن پر عمل کرنے والے کے لئے مذکورہ بالا حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشارت عطا فرمائی یہ ہیں۔ آیت (قد افلح المؤمنون ۔ الذین ہم فی صلوتہم خاشعون۔ والذین ہم عن الغو معرضون۔ والذین ہم للذکوۃ فاعلون۔ والذین ہم لفروجہم حافظو ن۔ الا علی ازواجہم او ماملکت ایمانہم فانہم غیر ملومین۔ فمن ابتغی وراء ذلک فاولئک ہم العادون۔ والذین ہم لاماناتہم وعہدہم راعون۔ والذین ہم علی صلوتہم یحافظون۔ اولئک ہم الوارثون۔ الذین یرثون الفردوس ہم فیہا خالدون)۔ بے شک ایمان والے رستگار ہو گئے (یعنی انہوں نے فلاح پائی ) جو نماز میں باطنی و ظاہری طور پر عجز و نیاز کرتے ہیں اور جو بے ہودہ چیزوں سے خواہ وہ کہنے کی ہوں یا کرنے کی منہ موڑتے رہتے ہیں اور جو ذکوۃ ادا کرتے ہیں اور جو حرام کاری سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا اپنی کنیزوں سے صحبت کرتے ہیں تو ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ہاں جو اس کے علاوہ کے طالب ہوں یعنی جو لوگ اپنی بیویوں سے اور کنیزوں کے علاوہ دوسرے افعال بد میں مبتلا ہوں۔ مثلا اغلام بازی ، جلق یا متعہ وغیرہ کریں تو وہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے یعنی دائرہ حلال سے تجاوز کرنے والے اور حرام میں مبتلا ہونے والے ہیں اور جو امانتوں اور عہد و پیمان کی محافظت کرتے ہیں اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں یعنی شرائط و آداب کے ساتھ نمازیں پابندی سے ادا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو وارث ہیں کہ یہی فردوس کے مالک ہوں گے جو جنت کا اعلیٰ درجہ ہے وہ لوگ (یعنی یہ مومنین جن کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں) اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں