مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ قریب المرگ کے سامنے جو چیز پڑھی جاتی ہے اس کا بیان ۔ حدیث 105

مومن اور کافر کی روح قبض ہونے کا بیان

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل صالحا قالوا : اخرجي أيتها النفس الطيبة كانت في الجسد الطيب اخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا تزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيفتح لها فيقال : من هذا ؟ فيقولون : فلان فيقال : مرحبا بالنفس الطيبة كانت في الجسد الطيب ادخلي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا تزال يقال لها ذلك حتى تنتهي إلى السماء التي فيها الله فإذا كان الرجل السوء قال : اخرجي أيتها النفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث اخرجي ذميمة وأبشري بحميم وغساق وآخر من شكله أزواج فما تزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيفتح لها فيقال : من هذا ؟ فيقال : فلان فيقال : لا مرحبا بالنفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث ارجعي ذميمة فإنها لا تفتح له أبواب السماء فترسل من السماء ثم تصير إلى القبر " . رواه ابن ماجه

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جو شخص قریب المرگ ہوتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں اور اگر وہ نیک و صالح ہوتا ہے تو (اس کی روح سے رحمت کے ) فرشتے کہتے ہیں کہ اے پاک جان جو پاک بدن میں تھی! اس حال میں (جسم سے) نکل کہ (خدا اور مخلوق کے نزدیک) تیری تعریف کی گئی ہے اور تجھے خوشخبری ہو دائمی راحت و سکون کی، جنت کے پاک رزق کی اور اللہ سے ملاقات کی جو (تجھ پر) غضبناک نہیں ہے۔ قریب المرگ کے سامنے فرشتے برابر یہی بات کہتے ہیں یہاں تک کہ روح (خوشی خوشی) باہر نکل آتی ہے اور پھر فرشتے اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں، آسمان کا دروازہ اس کے لئے (فرشتوں کے کہنے سے یا پہلے ہی سے) کھول دیا جاتا ہے (آسمان کے دربان) پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے؟ اسے لے جانے والے فرشتے (اس کا نام و نسب بتا کر) کہتے ہیں کہ یہ فلاں شخص (کی روح) ہے۔ پس کہا جاتا ہے کہ آفرین ہو اس جان پاک کو جو پاک بدن میں تھی اور ( اے پاک جان آسمان میں) داخل ہو اس حال میں کہ تیری تعریف کی گئی اور خوشخبری ہو تجھے راحت کی، پاک رزق کی اور پروردگار سے ملاقات کی جو غضبناک نہیں ہے۔ اس روح سے برابر یہی بات کہی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس آسمان پر (یعنی عرش پر) پہنچ جاتی ہے۔ جہاں اللہ رب العزت کی رحمت خاص جلوہ فرما ہے! ۔ اور اگر وہ برا (یعنی کافر) ہوتا ہے تو ملک الموت کہتے ہیں کہ اے خبیث جان جو پلید بدن میں اس حال میں (جسم سے) باہر نکل کہ تیری برائی کی گئی ہے اور یہ بری خبر سن لے کہ گرم پانی، پیپ اور ان کے علاوہ دوسری طرح کے عذاب تیرے منتظر ہیں۔ اس بدبخت قریب المرگ کے سامنے بار بار یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی روح (بادل نخواستہ) باہر نکل آتی ہے پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے (تاکہ اس کی ذلت و خواری اس پر ظاہر کر دی جائے) جب اس کے لئے آسمان کے دروازے کھلوائے جاتے ہیں تو دربانوں کی طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون شخص ہے؟ جواب دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص! پس کہا جاتا ہے کہ نفریں ہو اس خبیث جان پر جو پلید جسم میں تھی اور (اے خبیث جان) واپس چلی جا اس حال میں کہ تیری برائی کی گئی ہے اور تیرے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ چنانچہ اسے آسمان سے پھینک دیا جاتا ہے اور وہ قبر کی طرف آ جاتی ہے" ۔ (ابن ماجہ)

تشریح
اس کے پاس فرشتے آتے ہیں، سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قریب المرگ کے پاس اس کی روح قبض کرنے کے لئے رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں آتے ہیں، اگر قریب المرگ نیک و صالح ہوتا ہے تو رحمت کے فرشتے اپنا کام کرتے ہیں اور قریب المرگ بدکار ہوتا ہے تو پھر عذاب کے فرشتے اپنا کام کرتے ہیں۔
" نیک و صالح" سے یا عمومی طور پر مومن مراد ہے یا پھر وہ نیک بخت مراد ہے جو حقوق اللہ حقوق العباد دونوں ادا کرتا ہے اور اس کی زندگی اطاعت و فرمانبردار کی راہ پر گزری ہو۔
حدیث میں نیک و صالح اور کافر کی روح قبض کرنے کے بارہ میں تو تفصیل بتائی گئی ہے لیکن " فاسق" کے بارہ میں بالکل سکوت اختیار کیا گیا کیونکہ فاسق کے بارہ میں کتاب و سنت کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے بارہ میں سکوت اختیار کیا جاتا ہے تاکہ وہ خوف و رجاء کے درمیان رہے۔
مومن اور کافر کی روح کے درمیان اس امتیاز اور فرق کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ کافر کی روح تو آسمان سے دھتکار دی جاتی ہے اور اسے ہمیشہ کے لئے اسفل السافلین میں قید کر دیا جاتا ہے بخلاف مومن صالح کی روح کے کہ اسے آزادی حاصل ہوتی ہے اور آسمان و زمین میں جہاں چاہتی ہے سیر کرتی ہے، جنت میں میوے کھاتی ہے، عرش کے نیچے قندیلوں کی طرف اپنی جگہ اختیار کرتی ہے۔ پھر یہ کہ اسے قبر اپنے جسم کے ساتھ بھی تعلق رہتا ہے بایں طور کہ مردہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے سکوت و راحت سے لطف اندوز ہوتا ہے، دولھا کی نیند سوتا ہے اور اپنے اپنے حسب مراتب و درجات جنت میں اپنا مسکن دیکھتا رہتا ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رہے کہ روح کا معاملہ اور برزخ کے احوال اگرچہ خوارق عادات میں سے ہیں کہ ہماری دنیاوی زندگی ان سے مانوس و متعارف نہیں لیکن اس امور کے وقوع کے بارہ میں کسی قسم کا شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔

یہ حدیث شیئر کریں