مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ افعال حج کا بیان ۔ حدیث 1057

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حج وعمرہ کی تعداد

راوی:

وعن أنس قال : اعتمر رسول الله صلى الله عليه و سلم أربع عمر كلهن في ذي القعدة إلا التي كانت مع حجته : عمرة من الحديبية في ذي القعدة وعمرة من العام المقبل في ذي القعدة وعمرة من الجعرانة حيث قسم غنائم حنين في ذي القعدة وعمرة مع حجته "

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے کئے ہیں اور وہ سب ذی قعدہ کے مہینے میں کئے گئے تھے علاوہ اس ایک عمرہ کے جو حج کے ساتھ کیا گیا تھا اور ذی الحجہ کے مہینے میں ہوا تھا (اور ان چار عمروں کی تفصیل یہ ہے کہ ) ایک عمرہ حدیبیہ سے ذی قعدہ کے مہینے میں، دوسرا عمرہ اس کے اگلے سال وہ بھی ذی قعدہ میں ہوا، تیسرا عمرہ جعرانہ سے جہاں غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا گیا یہ عمرہ بھی ذی قعدہ میں ہوا اور چوتھا عمرہ حج کے ساتھ جو ذی الحجہ میں ہوا تھا ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حدیبیہ ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے مغربی جانب تقریبا پندرہ سولہ میل (٢٦کلو میٹر) کے فاصلے پر جدہ جاتے ہوئے ملتی ہے یہ مکہ سے شمال مغربی جانب ہے یہیں جبل الشمیسی نامی ایک پہاڑ ہے جس کی وجہ سے اب اس مقام کو شمیسہ بھی کہتے ہیں۔ حدود حرم یہاں سے بھی گزرتے ہیں اس لئے اس جگہ کا اکثر حصہ حرم میں ہے اور کچھ حصہ حل میں (یعنی حرم سے باہر) ہے۔
عمرہ حدیبیہ کا (اجمالی) بیان یہ ہے کہ سن ٦ھ میں ذی قعدہ کی پہلی تاریخ کو دوشنبہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرہ کے قصد سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے چودہ سو یا اس سے کچھ زائد رفقاء آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیبیہ پہنچے تو قریش مکہ جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور زیارت بیت اللہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روکا، کافی ردو قدح کے بعد کہ جس کی تفصیل تاریخ و سیر کی کتابوں میں ملتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قریش مکہ کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں آیا جو معاہدہ حدیبیہ اور صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدے کی رو سے یہ طے پایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مع رفقاء اس سال تو مدینہ واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آ کر عمرہ کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش سے صلح کر کے عمرہ کئے بغیر مدینہ منورہ واپس ہو گئے لہٰذا حقیقت میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ ادا نہیں کیا مگر عمرہ کا ثواب مل جانے کی وجہ سے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا عمرہ شمار کیا گیا۔ اسی موقع پر احصار کا حکم مشروع ہوا۔ چنانچہ آئندہ سال اسی عمرہ کی قضاء کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ تشریف لائے تین روز مکہ میں قیام فرمایا عمرہ ادا کیا اور چوتھے روز وہاں سے واپس ہوئے۔ یہ دوسرا عمرہ ہوا اسی عمرہ کو عمرۃ القضاء کہتے ہیں یہ نام احادیث میں بھی منقول ہے۔ حنفیہ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محرم احصار کی وجہ سے احرام سے باہر آ جائے تو اس کی قضا اس پر واجب ہو گی حضرت امام شافعی کے نزدیک قضا واجب نہیں ہوتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تیسرا عمرہ وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جعرانہ سے مکہ مکرمہ جا کر ادا کیا۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ حنین کا مال تقسیم کیا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جعرانہ، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جب فتح مکہ کے بعد سن ٨ھ میں غزوہ حنین کا واقعہ پیش آیا تو اس وقت بے شمار مال غنیمت ہاتھ لگا، اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جعرانہ میں پندرہ سولہ روز قیام پذیر رہے اور وہ مال غنیمت صحابہ میں تقسیم فرمایا: انہیں دنوں میں ایک روز رات میں بعد نماز عشاء آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ کیا اور اسی رات میں واپس آئے اور جعرانہ میں نماز فجر پڑھی۔
چوتھا عمرہ وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج فرض ہونے کے بعد سن ١٠ھ میں حج کے ساتھ کیا، لہٰذا یہ عمرہ تو ذی الحجہ میں ہوا اور بقیہ عمرے ذی قعدہ میں کئے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو چار عمرے کئے تھے وہ یہ تھے ، البتہ زمانہ اسلام میں حج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ کیا ہے جب کہ وہ فرض ہوا ہے ایام جاہلیت میں قریش حج کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس وقت حج کرتے تھے لیکن ان کی تعداد علماء کو صحیح طور پر معلوم نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں