مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بیان ۔ حدیث 1097

مشرکوں کا تلبیہ

راوی:

وعن ابن عباس قال : كان المشركون يقولون : لبيك لا شريك لك فيقول رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ويلكم قد قد " إلا شريكا هو لك تملكه وما ملك . يقولون هذا وهم يطوفون بالبيت . رواه مسلم

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ مشرک لوگ جب تلبیہ کہتے اور یہ کلمات ادا کرتے لبیک لا شریک لک (حاضر ہیں تیری خدمت میں، تیرا کوئی شریک نہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے افسوس ہے تم پر! بس بس(یعنی بس اتنا ہی کہو اس سے زیادہ مت کہو، مگر مشرک کب ماننے والے تھے وہ پھر اس کے بعد یہ کہتے) الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک(یعنی تیرا کوئی شریک نہیں ہاں وہ بت تیرا شریک ہے جو تیری ملک میں ہے ، تو اس کا مالک ہے وہ شریک تیرا مالک نہیں ہے۔ مشرک لوگ تلبیہ کے یہ کلمات خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کہا کرتے تھے۔ (مسلم)

تشریح
مشرک بھی حج و عمرہ اور طواف وغیرہ کیا کرتے تھے نیز وہ خانہ کعبہ کی تعطیم بھی ہمیشہ کیا کرتے تھے اور اس کا احترام ملحوظ رکھتے مگر جب لبیک کہتے تو اپنے شریک کی وجہ سے اس طرح کہتے لبیک لا شریک لک الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک یعنی وہ حق تعالیٰ سے شرک کی نفی تو کرتے مگر بتوں کا استثناء کرتے اور یہ کہتے کہ وہ بت اللہ کے شریک ہیں لیکن اس کے مملوک ہیں اور اللہ ان بتوں کا مالک ہے، چنانچہ وہ جب تلبیہ کہنا شروع کرتے اور یہ کہتے لبیک لاشریک لک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ یہاں تک تو ٹھیک بس تم اتنا ہی کہو کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس سے آگے نہ کہو مگر مشرکین کی عقلوں پر تو پردے پڑے ہوئے تھے وہ ہدایت کو کیسے مان لیتے اس لئے وہ آگے کے الفاظ کہنے سے باز نہیں آتے تھے، حالانکہ ان کے یہ کلمات الا شریکا ہولک الخ درحقیقت ان کی انتہائی حماقت اور بے وقوفی ہی کو ظاہر کرتے تھے کہ بتوں کو اللہ کی ملکیت بھی بتاتے تھے اور پھر انہیں شریک بھی کہتے تھے حالانکہ اگر انہیں عقل سلیم کی ذرا بھی رہنمائی حاصل ہوتی تو وہ خود یہ سمجھ سکتے تھے کہ بھلا مملوک اپنے مالک کا شریک کیوں کر ہو سکتا ہے؟

یہ حدیث شیئر کریں