مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت کو نہلانے اور کفنانے کا بیان ۔ حدیث 121

حضرت مصعب اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کفن

راوی:

عن سعد بن إبراهيم عن أبيه أن عبد الرحمن بن عوف أتى بطعام وكان صائما فقال : قتل مصعب بن عمير وهو خير مني كفن في بردة إن غطي رأسه بدت رجلاه وإن غطي رجلاه بدا رأسه وأراه قال : وقتل حمزة وهو خير مني ثم بسط لنا من الدنيا ما بسط أو قال : أعطينا من الدنيا ما أعطينا ولقد خشينا أن تكون حسناتنا عجلت لنا ثم جعل يبكي حتى ترك الطعام . رواه البخاري

حضرت سعد بن ابراہیم اپنے والد مکرم (حضرت ابراہیم) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب کہ وہ روزہ سے تھے (افطار کے لئے) کھانا لایا گیا، انہوں نے فرمایا کہ " حضرت مصعب بن عمیر جو شہید کر دئیے گئے تھے مجھ سے بہتر تھے مگر وہ صرف ایک چادر میں کفنائے گئے تھے ۔ (جو اس قدر چھوٹی تھی) کہ اگر ان کا سر ڈھانکا جاتا تھا تو ان کے پاؤں کھل جاتے تھے اور اگر ان کے پاؤں ڈھانک دئیے جاتے تھے تو ان کا سر کھل جاتا تھا آخر کار ان کا سر تو اس چادر سے ڈھک دیا گی اور پیروں پر اذخر ڈال دی گئی جیسا کہ باب جامع المناقب کی حدیث میں یہ تفصیل ہے حضرت ابراہیم حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے یہ بھی فرمایا حضرت حمزہ جو شہید کر دئیے گئے تھے مجھ سے بہتر تھے اور ان کو بھی ایسا ہی کفن نصیب ہوا جیسا کہ حضرت مصعب بن عمیر کو اور جب مسلمانوں کی تنگدستی و پریشانی کا یہ دور اللہ کے فضل سے ختم ہوا تو پھر ہمارے لئے دنیا اس قدر فراخ کی گئی کہ جو ظاہر ہے یا یہ فرمایا کہ دنیا ہمیں اس قدر دی گئی جتنی کہ دی گئی ہے۔ ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا صلہ ہمیں جلد ہی (یعنی دنیا ہی میں) نہ مل گیا ہو، پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف (اسی خوف کی وجہ سے) رونے لگے یہاں تک کہ انہوں نے کھانا چھوڑ دیا۔ (بخاری)

تشریح
حضرت عبدالرحمن بن عوف بڑے باعظمت صحابی ہیں اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، اسی طرح حضرت مصعب ابن عمیر بھی جلیل القدر اور ذی شان و باعظمت صحابہ میں سے ہیں، جنگ بدر میں شریک ہوئے ہیں، اور جنگ احد میں شہید ہوئے۔
حضرت مصعب بن عمیر اسلام قبول کرنے سے پہلے بڑے مالدار تھے مگر جب ایمان و اسلام کی مقدس شعاعوں نے قلب و دماغ کو منور کیا اور غلامان رسالت میں شامل ہوئے تو مال و دولت سے منہ موڑ کر زہد و فقر کی زندگی اختیار کی منقول ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں اس حال میں حاضر ہوئے کہ کمر میں تسمہ بندھا ہوا تھا، آپ نے انہیں دیکھ کر صحابہ سے فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو اللہ تعالیٰ نے ایمان کی روشنی سے اس کا دل منور کر دیا ہے۔ میں نے اسے مکہ میں اس حال میں دیکھا ہے کہ اس کے ماں باپ اسے اچھا سے اچھا کھانا کھلاتے تھے اور میں دیکھتا تھا کہ اس کے جسم پر دو سو درہم کا لباس ہوتا تھا۔ مگر اب اس شخص نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں اپنے آپ کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محترم چچا ہیں۔ اہل بدر میں سے تھے اور جنگ احد میں شہد ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سیدالشہداء فرمایا ہے۔
حضرت عبدالرحمن کے قول ولقد خشینا الخ ہمیں اس بات کا خوف ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی نعمتوں نے جس فراخی سے اپنی آغوش ہمارے لئے کھول دی ہے اس کی وجہ سے ہم ڈرتے ہیں کہیں ہم بھی ان لوگوں میں داخل نہ ہو جائیں جن کے بارہ میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ آیت (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّ لْنَا لَه فِيْهَا مَا نَشَا ءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَه جَهَنَّمَ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا) 17۔ الاسراء : 18)۔ جو شخص دنیا (کی نعمتوں کے حصول) کا ارادہ کرتا ہے تو ہم ایسے شخص کو دنیا میں جو چیز چاہتے ہیں اور جس کے واسطے چاہتے ہیں جلدی ہی دیدیتے ہیں پھر ہم اس کے لئے جہنم تجویز کرتے ہیں جس میں وہ بدحال اور راندہ درگارہ ہو کر داخل ہو گا۔
چونکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف پر خوف الٰہی غالب اور ان کا دل خشیت الٰہی سے لرزاں تھا اس لئے انہیں خیال ہوا کہ مبادا میں ان لوگوں میں داخل ہو جاؤں جن کے بارے میں حق تعالیٰ یہ سخت وعید بیان فرما رہے ہیں ورنہ تو ظاہر ہے کہ آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو شخص صرف دنیا اور محض دنیا کی نعمتوں کا خواہش مند و طلب گار ہوتا ہے اور دنیا و دنیا کی نعمتوں کے علاوہ اس کے خواہش و طلب کا محور اور کوئی چیز نہیں ہوتی تو ہم دنیا میں اسے اپنے انعام سے نواز دیتے ہیں لیکن ہم اسے وہی دیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں نہ یہ کہ جو کچھ اس کی خواہش ہوتی ہے اسی طرح ہم اس شخص کو دنیا کی نعمتیں دیتے ہیں جسے ہم دینا چاہتے ہیں نہ یہ کہ ہر خواہش مند و طلب گار کو ہم دنیا کی نعمتیں دیتے ہیں حاصل یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں ان لوگوں کے بارہ میں وعید بیان کی گئی ہے جو صرف دنیا کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضرت عبدالرحمن ان لوگوں میں سے نہیں تھے مگر ان پر چونکہ خوف اللہ غالب تھا اس لئے ڈرے کہ دنیا کی اس آسائش و فراخی کی وجہ سے کہیں ہمارا شمار بھی انہیں لوگوں میں نہ ہو جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف پر خوف الٰہی اور خشیت الٰہی کے غلبہ ہی کا یہ اثر تھا کہ روزہ دار ہونے کی وجہ سے باوجود شدید احتیاج اور ضرورت کے انہوں نے کھانا تک چھوڑ دیا اور کچھ کھایا نہیں کیونکہ جب کسی کا قلب خوف الٰہی سے لرزاں ہوتا ہے تو وہ کسی بھی دنیاوی و جسمانی خواہش و لذت کی طرف مائل نہیں ہوتا۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بوقت ضرورت جس قدر بھی کفن میسر آ جائے وہی مسنون ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں