مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ میت کو نہلانے اور کفنانے کا بیان ۔ حدیث 122

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے ساتھ اس کے انتقال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ

راوی:

وعن جابر قال : أتى رسول الله صلى الله عليه و سلم عبد الله بن أبي بعدما أدخل حفرته فأمر به فأخرج فوضعه على ركبتيه ن فنفث فيه من ريقه وألبسه قميصه قال : وكان كسا عباسا قميصا
المشي بالجنازة والصلاة عليها – الفصل الأول

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس اس وقت تشریف لائے جب کہ وہ اپنی قبر میں اتارا جا چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (اس کی قبر) سے نکالنے کا حکم فرمایا جب وہ نکالا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اپنا مبارک لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اسے اپنا کرتہ پہنایا " حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی نے حضرت عباس کو اپنا کرتہ پہنایا تھا " (بخاری ومسلم)

تشریح
عبداللہ بن ابی اسلامی تاریخ کا ایک جانا پہچانا شخص ہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ فروکش ہوئے اور اس طرح اسلامی دعوت و تبلیغ کا مرکز مکہ سے مدینہ منورہ منتقل ہوا تو اسلام کی دعوت تو حید و رسال کے نتیجہ میں تین جماعتیں سامنے آئیں، ایک جماعت تو ان باسعادت و مقدس اور عظیم انسانوں پر مشتمل تھی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا، خلوص اور صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے اور نبوت کے بعد نسل انسانی کے سب سے عظیم و باسعات مرتبہ " صحابیت" سے نوازے گئے۔
دوسری جماعت پہلی کے بالکل برعکس ان بدبخت وسیہ کار لوگوں پر مشتمل تھی جنہوں نے علی الاعلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی اور جس کے نتیجہ میں نسل انسانی کے سب سے ذلیل و کمتر درجہ " کفر و شرک" پر قائم رہے۔
ان دونوں جماعتوں کے درمیان ایک تیسری جماعت تھی یہ تیسری جماعت ان خود غرض و مفاد پرست لوگوں پر مشتمل تھی جو اپنی اغراض و مقاصد کے تحت بظاہر تو مسلمان ہو گئے تھے اور مسلمانوں کو دکھانے کے لئے ان کے ہمنوا بھی ہوتے تھے مگر اندرونی طور پر ان کی ساری سرگرمیوں کا مرکز دعوت اسلامی کی مخالفت اور مسلمانوں کی بیخ کنی کا جذبہ ہوتا تھا۔ یہی وہ جماعت تھی جو انسانیت کی ارذل ترین اور قابل نفرین خصلت " نفاق" سے بھر پور تھی اور اسلامی تاریخ میں یہی جماعت " منافقین" کے نام سے یاد کی گئی۔ عبداللہ بن ابی اسی جماعت کا سربراہ اور سردار تھا۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم محترم) اگرچہ غزوہ بدر سے بہت پہلے ہی اسلام قبول کر چکے تھے مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کیا تھا، چنانچہ جب جنگ بدر ہوئی تو یہ کفار مکہ کی طرف سے بدر میں مجبورا شریک ہوئے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چونکہ یہ معلوم تھا کہ یہ مسلمان ہو چکے ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو آگاہ فرما دیا تھا کہ جنگ میں ان پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ بہر حال جب جنگ ختم ہوئی اور حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب فرمایا تو اسلامی لشکر کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد کو میدان جنگ سے اسیر بنا کر مدینہ لایا۔ انہیں قیدیوں میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، حضرت عباس جب مدینہ لائے گئے تو ان کے بدن پر کپڑا نہیں تھا اور چونکہ وہ دراز قد تھے اس لئے کسی مسلمان کا لباس ان کے جسم پر نہیں آیا، اتفاق سے عبداللہ بن ابی بھی دراز قد تھا اس نے اپنا کرتہ حضرت عباس کے لئے پیش کیا جسے بدرجہ مجبوری قبول کر لیا گیا اس طرح حضرت عباس نے عبداللہ بن ابی کا کرتہ پہنا۔ چنانچہ جب عبداللہ بن ابی مرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے کرتہ کا بدلہ اتارنے کے لئے اپنا کرتہ اس کو پہنا دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک منافق کا احسان باقی نہ رہے۔
اس موقعہ پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت (ولا تصلی علی احد منہم مات ابدا ولا تقم علیٰ قبرہ)۔ منافقین میں سے جو مر جائے اس کے لئے (مغفرت و بخشش کی) کبھی دعا نہ کیجئے اور نہ ہی اس کی قبر پر جائیے۔ مگر اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبداللہ بن ابی کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کو اپنا کرتہ پہنایا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا؟
علماء نے اس اشکال کے بہت سارے جواب دئیے ہیں جو پوری تفصیل کے ساتھ دوسری شروح میں مذکور ہیں یہاں تو صرف یہ جواب نقل کر دینا کافی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ مذکورہ بالا آیت نازل نہیں ہوئی تھی، پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد صرف اس کے ایک احسان کا بدلہ اتارنا تھا جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا، نیز عبداللہ بن ابی کا لڑکا چونکہ مخلص و صادق مومن تھا اور وہ نفاق سے پاک تھا اس لئے اس کی تالیف قلب اور خاطر داری بھی پیش نظر تھی۔

یہ حدیث شیئر کریں