مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ حرم مدینہ کا بیان ۔ حدیث 1287

مدینہ برے آدمیوں کو نکال دیتا ہے

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أمرت بقرية تأكل القرى . يقولون : يثرب وهي المدينة تنفي الناس كما ينفي الكير خبث الحديد "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے جو تمام بستیوں پر غالب رہتی ہے اور اس بستی کو لوگ یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے جو برے آدمیوں کو اس طرح نکال دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو نکال دیتی ہے ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
" جو تمام بستیوں پر غالب رہتی ہے" کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مدینہ میں رہتے ہیں وہ دوسرے لوگوں پر غالب رہتے ہیں اور دوسرے شہروں کو فتح کرتے ہیں، چنانچہ تاریخی طور پر اس عظیم الشان شہر کی یہ خصوصیت ثابت ہے کہ مدینہ میں آکر بسنے والے دوسروں پر غالب اور بیشتر شہروں کے فاتح رہے ہیں، پہلے قوم عمالقہ آ کر شہر میں آباد ہوئی اس نے غلبہ حاصل کیا اور کتنے ہی شہروں اور علاقوں کو فتح کیا ، پھر یہود آئے تو وہ عمالقہ پر غالب ہوئے پھر انصار پہنچے تو انہوں نے یہودیوں پر اپنا اقتدار قائم کیا، یہاں تک کہ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مہاجرین کرام رضی اللہ عنہم نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا تو ان کو جس طرح غلبہ حاصل ہوا اور جس طرح انہوں نے مشرق سے لے کر مغرب تک پورے عالم کو اپنے زیر اثر کیا وہ سامنے کی بات ہے۔
اس شہر کا نام پہلے یثرب اور اثرب تھا، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت فرما کر یہاں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شہر کی مدنیت اور کثرت آبادی کے پیش نظر اس کا نام " مدینہ" رکھا نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ آئندہ اس شہر کو یثرب نہ کہا جائے کیونکہ اول تو یہ زمانہ اسلام سے قبل کا نام تھا جس سے عہد جاہلیت کی بو آتی تھی ، دوسرے یہ کہ معنوی طور پر بھی یہ نام بالکل نامناسب تھا اس لئے کہ یثرب کے معنی ہیں" ہلاک و فساد" نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یثرب ایک بت یا ایک بہت بڑے ظالم شخص کا نام تھا۔
بخاری نے اپنی تاریخ میں ایک روایت نقل کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ یثرب کہے تو اسے چاہئے کہ وہ دس مرتبہ مدینہ کہے تاکہ اس مقدس شہر کا ممنوع نام لینے کا تدارک اور اس کی تلافی ہو جائے ، نیز ایک روایت یہ بھی ہے کہ " جو شخص یثرب کہے وہ استغفار کرے" ۔
" برے آدمیوں سے مراد اہل کفر و شرک ہیں، جو اسلام کا غلبہ ہو جانے کے بعد اس شہر سے نکال دئیے گئے تھے، چنانچہ کفار و مشرکین پر اس شہر کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دئیے گئے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں