مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ قبروں کی زیارت کا بیان ۔ حدیث 256

قبروں پر جانے کے آداب واحکام

راوی:

قبروں پر جانے کے کچھ آداب و احکام میں جو شریعت نے بتائے ہیں مثلاً (١) جب کوئی شخص دعاء مغفرت و ایصال ثواب کی خاطر کسی کی قبر پر جائے تو وہاں صاحب قبر کے منہ کے سامنے اس طرح کھڑا ہو کہ منہ تو قبر کی طرف پشت قبلہ کی طرف ہو۔ (٢) قبر پر پہنچ کر صاحب قبر کو سلام پیش کرے (٣) قبر کو ہاتھ نہ لگائے (٤) قبر کو چومے نہیں (٥) قبر کے سامنے تعظیما نہ جھکے اور نہ قبر کو سجدہ کرے (٦) قبر کی مٹی منہ پر نہ ملے کہ نصاری کی عادت ہے۔
ان احکام و آداب کے علاوہ ایسی چیزیں اختیار کرنا جن کا شریعت میں کوئی وجود نہیں ہے انتہائی گمراہی اور ضلالت کی بات ہے۔
قبر کے پاس قرآن کریم کی تلاوت مکروہ نہیں ہے نیز یہ مستحب ہے کہ جب کوئی شخص مر جائے تو وہاں صورت اخلاص سات مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب صاحب قبر کو بخش دے دوسرے دنوں کی بنسبت جمعہ کے روز خصوصا دن کے ابتدائی حصہ میں قبر پر جانا افضل ہے چنانچہ حرمین شریف میں یہی معمول رہا ہے کہ لوگ جمعہ کے دن کے ابتدائی حصہ میں معلیٰ اور بقیع میں زیارت قبور کے لئے جایا کرتے تھے نیز منقول ہے کہ کہ دوسرے دنوں کی بنسبت جمعہ کے روز میت کو زیادہ علم اور ادراک دیا جاتا ہے اور وہ جمعہ کے روز اپنی قبر پر آنے والوں کو دوسرے دنوں کی بہ نسبت زیادہ پہچانتا ہے جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ قبروں کو بغیر ضرورت روندنا یعنی انہیں پامال کرنا اور ان پر چلنا مکروہ ہے یہ مستحب ہے کہ مرنے کے بعد سات دن تک میت کی طرف سے اللہ کے نام پر کچھ خرچ کیا جاتا ہے۔
ونہیتکم عن لحوم الاضاحی کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء اسلام میں مسلمانوں کے پاس مال و دولت اور اسباب معیشت کی فراخی نہیں تھی اکثر لوگ چونکہ تنگ دست تھے اس لئے ہر شخص قربانی نہیں کر سکتا تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کرنے والوں سے فرما دیا تھا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھ کر نہ کھایا کریں بلکہ تنگدست اور غریب لوگوں میں تقسیم کر دیا کریں مگر جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مال و دولت اور اسباب معیشت کی وسعت بخشی اور ان کی تنگدستی اور مفلسی کا دور ختم ہو گیا جس کی وجہ سے انہیں دوسروں کے قربانی کے گوشت کی ضرورت و حاجت نہ رہی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی کہ قربانی کا گوشت جتنے دن بھی چاہیں رکھ سکتے ہیں۔
" نبیذ" ایک مخصوص قسم کا شراب ہوتا ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کھجور یا انگور پانی میں ڈال لیتے ہیں اور انہیں چند روز تک اسی طرح پانی میں رہنے دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ ایک شراب سا بن جاتا ہے، یہ نبیذ اس وقت تک حلال ہے جب تک کہ اس میں نشہ پیدا ہو جائے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابتداء اسلام میں مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ نبیذ مشک میں رکھی جایا کرے کیونکہ مشک پتلی ہوتی ہے اس میں رکھی ہوئی نبیذ جلد ہی گرم ہو کر نشہ آور نہیں ہوتی۔ دوسرے برتنوں میں نبیذ رکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرما دیا مثلاً لاکھ کئے ہوئے برتنوں وغیرہ میں نبیذ نہ رکھی جائے کیونکہ اس قسم کے برتنوں میں رکھی ہوئی نبیذ جلد ہی گرم ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے اس میں نشہ پیدا ہو جاتا تھا اور چونکہ اس وقت کچھ عرصہ پہلے ہی شراب حرام ہوئی تھی اور لوگ ہنوز شراب کی لذت نہیں بھولے تھے اس لئے خدشہ تھا کہ کہیں لوگ اس طرح آہستہ آہستہ پھر شراب کی طرف متوجہ نہ ہونے لگیں اس کے بعد جب شراب کی حرمت کا حکم پوری طرح لوگوں کے دل میں بیٹھ گیا اور شراب سے کلیہ اجتناب لازم ہو گیا نیز اس بات کا کوئی احتمال باقی نہیں رہا کہ اب لوگوں کی خواہشات پھر شراب کی طرف کسی بھی حیثیت سے مبذول ہو سکتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی کہ کسی بھی برتن میں نبیذ پی جا سکتی ہے تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر بھی تاکید فرما دی کہ نبیذ اس وقت پینی جائز ہو گی جب تک کہ اس میں نشہ کا شائبہ بھی نہ پایا جائے جیسا کہ حدیث کے آخری الفاظ ولا تشربوا مسکرا سے یہ بات واضح ہو رہی ہے اور جس کا حاصل یہی ہے کہ ممانعت کا تعلق نشہ سے ہے برتن سے نہیں ہے برتن سے ممانعت تو اس صرف احتیاط کے پیش نظر کی گئی تھی اصل مقصد اس وقت بھی یہی تھا کہ لوگوں کا رجحان نشہ کی طرف دوبارہ مائل نہ ہونے پائے۔

یہ حدیث شیئر کریں