مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان ۔ حدیث 376

ادائیگی شکر کا اجر اور ناشکری کی سزا

راوی:

وعن أبي هريرة أنه سمع النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " إن ثلاثة في بني إسرائيل أبرص وأقرع وأعمى فأراد الله أن يبتليهم فبعث إليهم ملكا فأتى الأبرص فقال أي شيء أحب إليك قال لون حسن وجلد حسن ويذهب عني الذي قد قذرني الناس " قال : " فمسحه فذهب عنه قذره وأعطي لونا حسنا وجلدا حسنا قال فأي المال أحب إليك قال الإبل – أو قال البقر شك إسحق – إلا أن الأبرص أو الأقرع قال أحدهما الإبل وقال الآخر البقر قال فأعطي ناقة عشراء فقال بارك الله لك فيها " قال : " فأتى الأقرع فقال أي شيء أحب إليك قال شعر حسن ويذهب عني هذا الذي قد قذرني الناس " . قال : " فمسحه فذهب عنه وأعطي شعرا حسنا قال فأي المال أحب إليك قال البقر فأعطي بقرة حاملا قال : " بارك الله لك فيها " قال : " فأتى الأعمى فقال أي شيء أحب إليك قال أن يرد الله إلي بصري فأبصر به الناس " . قال : " فمسحه فرد الله إليه بصره قال فأي المال أحب إليك قال الغنم فأعطي شاة والدا فأنتج هذان وولد هذا قال فكان لهذا واد من الإبل ولهذا واد من البقر ولهذا واد من الغنم " . قال : " ثم إنه أتى الأبرص في صورته وهيئته فقال رجل مسكين قد انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك أسألك بالذي أعطاك اللون الحسن والجلد الحسن والمال بعيرا أتبلغ عليه في سفري فقال الحقوق كثيرة فقال له كأني أعرفك ألم تكن أبرص يقذرك الناس فقيرا فأعطاك الله مالا فقال إنما ورثت هذا المال كابرا عن كابر فقال إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت " . قال : " وأتى الأقرع في صورته فقال له مثل ما قال لهذا ورد عليه مثل ما رد على هذا فقال إن كنت كاذبا فصيرك الله إلى ما كنت " . قال : " وأتى الأعمى في صورته وهيئته فقال رجل مسكين وابن سبيل انقطعت بي الحبال في سفري فلا بلاغ لي اليوم إلا بالله ثم بك أسألك بالذي رد عليك بصرك شاة أتبلغ بها في سفري فقال قد كنت أعمى فرد الله إلي بصري فخذ ما شئت ودع ما شئت فوالله لا أجهدك اليوم شيئا أخذته لله فقال أمسك مالك فإنما ابتليتم فقد رضي عنك وسخط على صاحبيك "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ان میں ایک تو کوڑھی تھا دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمانا چاہا کہ یہ نعمت الٰہی کا شکر ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ مسکین و فقیر کی صورت میں بھیجا وہ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ کوڑھی نے کہا کہ اچھا رنگ اور جسم کی بہترین جلد نیز یہ کہ مجھے اس چیز یعنی وڑھ سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ یہ سن کر فرشتہ نے کوڑھی کے بدن پر ہاتھ پھیرا چنانچہ اس کا کوڑھ جاتا رہا۔ اسے بہترین رنگ و روپ اور بہترین جلد عطا کر دی گئی۔ پھر فرشتہ نے پوچھا کہ اب تمہیں کونسا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس شخص نے کہا کہ " اونٹ" یا کہا " گائیں۔ (حدیث کے ایک راوی اسحق کو شک ہے کہ ) گائے کے لئے کوڑھی نے کہا تھا یا گنجے نے کہا تھا بہرحال یہ طے ہے کہ ان میں سے ایک نے تو اونٹ کے لئے کہا تھا اور دوسرے نے گائے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اس شخص کو حاملہ اونٹنیاں عطا کر دی گئیں پھر فرشتے نے یہ دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس مال میں برکت عطا فرمائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ گنجے نے کہا کہ بہترین قسم کے بال ، اور یہ کہ یہ چیز یعنی گنجے پن سے نجات پا جاؤں جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا گنج جاتا رہا نیز اسے بہترین قسم کے بال عطا کر دئیے گئے۔ پھر فرشتہ نے اس سے پوچھا کہ اب تمہیں کونسا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس شخص نے کہا کہ گائیں چنانچہ اسے حاملہ گائیں عطا کر دی گئیں اور فرشتہ نے اسے دعا بھی دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس مال میں برکت عطا فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اس کے بعد پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ اندھے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے میری بینائی دے تاکہ میں اس کے ذریعے لوگوں کو دیکھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتہ نے اس اس پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی بینائی عطا فرما دی ، پھر فرشتے نے اس سے پوچھا کہ اب تمہیں کون سا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا بکریاں چنانچہ اسے بہت سی بچے دینے والی بکریاں عنایت فرما دی گئیں اس کے کچھ عرصے کے بعد کوڑھی اور گنجے نے اونٹنیوں اور گائیوں کے ذریعے اور اندھے نے بکریوں کے ذریعے بچے حاصل کئے گویا اللہ نے تینوں کے مال میں بے انتہا برکت دی یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے ایک جنگل بھر گیا گنجے کی گائیوں سے ایک جنگل بھر گیا، اور اندھے کی بکریوں سے ایک جنگل بھر گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے بعد فرشتہ پھر کوڑھی کے پاس اپنی اسی پہلی شکل و صورت میں آیا۔ اور اس سے کہنے لگا کہ میں ایک مسکین شخص ہوں میرا تمام سامان سفر کے دوران جاتا رہا ہے اس لئے آج منزل مقصود تک میرا پہنچنا ممکن نہیں ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی ہو جائے اور اس کے بعد تم ذریعہ بن جاؤ تو میری یہ مشکل آسان ہو جائے گی لہٰذا میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ، بہترین جلد اور مال عطا کیا ہے ایک اونٹ مانگتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے میرا سفر پورا ہو جائے اور میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاؤں اس کوڑھی نے کہا کہ میرے اوپر حق بہت زیادہ ہیں (یعنی اس کوڑھی نے فرشتے کو ٹالنے کے لئے جھوٹ کہا کہ میرے اس مال کے حقدار بہت ہیں اس لئے تمہیں کوئی اونٹ نہیں مل سکتا) فرشتے نے کہا کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تم وہی کوڑھی نہیں ہو جس سے لوگوں کو گھن آتی تھی اور تم محتاج و قلاش تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہترین رنگ و روپ کے ساتھ صحت عطا فرمائی اور مال سے نوازا کوڑھی نے کہا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ مال تو مجھے اپنے باپ دادا کی طرف سے وراثت میں ملا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ تم جھوٹے ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسی حالت کی طرف پھیر دے جس میں تم پہلے مبتلا تھے یعنی تمہیں پھر کوڑھی اور مفلس بنا دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی پہلی سی شکل و صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی کہا جو اس نے کوڑھی سے کہا تھا چنانچہ گنجے نے بھی وہی جواب دیا جو جواب کوڑھی نے دیا تھا فرشتے نے گنجے سے بھی یہی کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں ویسا ہی کر دے جیسا کہ تم پہلے گنجے اور محتاج تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس اپنی اسی پہلی شکل و صورت میں آیا اور اس سے بھی یہی کہا کہ میں ایک مسکین انسان اور مسافر ہوں میرا تمام سامان سفر کے دوران جاتا رہا ہے۔ اس لئے آج منزل مقصود تک پہنچنا اس شکل میں ممکن ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی میرے شامل حال ہو جائے اور اس کے بعد تم اس کا ذریعہ بن جاؤ لہٰذا میں اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہاری بینائی واپس کر دی تم سے ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے میں اپنا سفر پورا کر سکوں اندھے نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ کہا کہ بے شک پہلے میں ایک اندھا تھا اللہ تعالیٰ نے میری بینائی واپس کر دی ہے لہٰذا میری تمام بکریاں حاضر ہیں اس میں تم جو چاہو لے لو اور جو نہ چاہو اسے چھوڑ دو تم جو کچھ بھی لوگے میں اللہ کی قسم تمہیں اس کو واپس کرنے کی تکلیف نہیں دوں گا۔ یہ سن کر فرشتے نے کہا کہ تمہیں تمہارا مال مبارک تم اپنا مال اپنے پاس رکھو مجھے تمہارے مال کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت تو صرف تمہیں آزمائش میں مبتلا کیا گیا تھا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارا امتحان لیا تھا کہ آیا تمہیں اپنا پرانا حال یاد بھی ہے یا نہیں؟ اور تم اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہو یا نہیں؟ سو تم آزمائش میں پورے اترے چنانچہ اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہوا اور تمہارے وہ دونوں بدبخت ساتھی یعنی کوڑھی اور گنجا ناشکرے ثابت ہوئے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض قرار پائے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی ہو جائے اور اس کے بعد تم ذریعہ بن جاؤ علماء کہتے ہیں کہ کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے کے موقع پر یہ اسلوب اختیار کرنا جائز ہے کیونکہ اس طرح اصل سوال تو اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ مگر بندہ کو اس کا ذریعہ اور سبب بنایا جاتا ہے ایسا اسلوب اختیار کرنا کہ جس میں اللہ کے ساتھ بندہ بھی حاجت روائی کا درجہ پا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں اللہ سے اور تم سے سوال کرتا ہوں ، قطعا درست نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں