مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان ۔ حدیث 377

کسی سائل کو واپس لوٹانے سے بہتر ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ دے دیا جائے۔

راوی:

وعن أم بجيد قالت : قلت يا رسول الله إن المسكين ليقف على بابي حتى أستحيي فلا أجد في بيتي ما أدفع في يده . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ادفعي في يده ولو ظلفا محرقا " . رواه أحمد وأبو داود والترمذي

حضرت ام مجید رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جب کوئی سائل میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو مجھے بڑی شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ میں اپنے گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتی جو اس کے ساتھ میں دے دو؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ دے دو خواہ وہ جلا ہوا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (احمد، ابوداؤد ، ترمذی) اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ و خیرات کے بارے میں یہ حکم گویا بطور مبالغہ ارشاد فرمایا کہ سائل کو خالی ہاتھ واپس کرنے سے بہتر ہے کہ اس کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے خواہ وہ کتنی حقیر اور کم تر چیز کیوں نہ ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں