مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ صدقہ کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 400

کھیتی کا نقصان اور اس پر ثواب

راوی:

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما من مسلم يغرس غرسا أو يزرع زرعا فيأكل منه إنسان أو طير أو بهيمة إلا كانت له صدقة "

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیت بوتا ہے اور پھر انسان یا پرند اور چرند مالک کی مرضی کے بغیر اس میں سے کچھ کھاتے ہیں تو یہ نقصان مالک کے لئے صدقہ ہو جاتا ہے۔ (بخاری ومسلم)
اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ اور اس میں سے جو کچھ چوری ہو جاتا ہے وہ مالک کے لئے صدقہ ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے درخت کا پھل وغیرہ یا اس کی کھیتی میں سے اگر کوئی چرند پرند کسی بھی طرح یا کسی بھی سبب سے کچھ کھا لیتے ہیں تو مالک کو وہی ثواب ملتا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خیرات کرنے کا ثواب ہوتا ہے گویا اس ارشاد گرامی کے ذریعے مالک کو نقصان مال پر تسلی دلائی جا رہی ہے کہ وہ ایسے موقع پر صبر کرے کیونکہ اس نقصان کے بدلے میں اسے بہت زیادہ ثواب ملتا ہے۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اعمال کا ثواب تو نیت پر موقوف ہے اور ظاہر ہے کہ صورت مذکورہ میں مالک کی طرف سے نیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر ثواب کیسے ملتا ہے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ کھیتی کا مقصود اصلی مطلقاً نوع انسانی و حیوانی کی حیات و بقاء ہے یعنی کاشتکار کسان جب کھیت میں بیج ڈالتا ہے۔ یا درخت کا کوئی پودا لگاتا ہے تو اس کے پیش نظر کسی فرد کی تخصیص کے بغیر مطلقاً نوع انسانی و حیوانی کی ضروریات زندگی کی تکمیل کی نیت ہوتی ہے۔ اب اس کھیت یا درخت سے انسان و حیوان کا جو فرد بھی فائدہ اٹھائے گا خواہ وہ ناجائز طریقہ سے فائدہ اٹھایا جائز طریقے سے اس کی اجمالی نیت کا تعلق اس سے ہو گا، یہ الگ بات ہے کہ جو شخص ناجائز طریقے سے فائدہ اٹھائے گا وہ اپنے جرم کی سزا پائے گا۔ مگر مالک کے حق میں اس کی اجمالی نیت کافی ہو جائے گی کیونکہ حصول ثواب کے لئے اجمالی نیت کافی ہے اس کے مالک کو نقصان کے بدلے میں صدقہ کا ثواب مل جائے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں