مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ بہترین صدقہ کا بیان ۔ حدیث 444

ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا جذبہ سخاوت

راوی:

عن أنس بن مالك قال : كان أبو طلحة أكثر أنصاري بالمدينة مالا من نخل وكان أحب أمواله إليه بيرحاء وكانت مستقبل المسجد وكان رسول الله صلى الله عليه و سلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب قال أنس فلما نزلت ( لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون )
قام أبو طلحة فقال يا رسول الله إن الله تعالى يقول : ( لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون )
وإن أحب مالي إلي بيرحاء وإنها صدقة لله أرجو برها وذخرها عند الله فضعها يا رسول الله حيث أراك الله فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " بخ بخ ذلك مال رابح وقد سمعت ما قلت وإني أرى أن تجعلها في الأقربين " . فقال أبو طلحة أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وفي بني عمه

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ کے انصار میں کھجوروں کے اعتبار سے بہت زیادہ مال دار تھے اپنے مال میں انہوں سب سے زیادہ پسند اپنا باغ بیر حاء (نامی) تھا جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اکثر اس باغ میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں کا پانی پیتے تھے جو بہت اچھا (یعنی شیریں یا یہ کہ بلا کسی شک و شبہہ کے حلال و پاک تھا) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی" نیکی (یعنی جنت) کو اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تم وہ چیز (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جو تمہارے نزدیک پسندیدہ ہے۔ تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی یعنی جنت تک نہیں پہنچ سکتے تا وقتیکہ اپنی اس چیز کو خرچ نہ کرو جو تمہارے نزدیک پسندیدہ ہے لہٰذا بیر حاء جو تمام مال میں مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے میں اسے اللہ کے واسطے صدقہ کرتا ہوں اور (اس آیت کریمہ کے پیش نظر) اس سے نیکی کی امید رکھتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ اللہ کے نزدیک میرے لئے ذخیر آخرت ہو گا۔ پس یا رسول اللہ! اسے قبول فرمائیے (اور ) جہاں اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتائے (یعنی جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناسب سمجھیں اسے خرچ فرمائیے) رول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شاباش! شاباش!یہ باغ نفع پہنچانے والا مال ہے جو کچھ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا ہے میرے نزدیک مناسب ہے کہ تم اس باغ کو اپنے (محتاج) اقرباء میں تقسیم کردو (تاکہ صدقہ کے ثواب کے ساتھ صلہ رحمی کا ثواب بھی مل جائے) ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے ارشاد کے مطابق ہی عمل کروں گا، چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس باغ کو اپنے اقرباء اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔ (بخاری ومسلم)
تشریح : جہاں یہ احتمال ہے کہ بنی عمہ (چچا کے بیٹے) اقاربہ کا بیان ہو وہیں یہ احتمال بھی ہے کہ اقا رب سے چچا کے بیٹوں کے علاوہ دوسرے اقرباء مراد ہوں۔

یہ حدیث شیئر کریں