مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ رویت ہلال کا بیان ۔ حدیث 490

روزہ کی نیت کب کی جائے

راوی:

عن حفصة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من لم يجمع الصيام قبل الفجر فلا صيام له " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي والدارمي وقال أبو داود : وقفه على حفصة معمر والزبيدي وابن عيينه ويونس الأيلي كلهم عن الزهري

حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راویہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص روزے کی نیت فجر سے پہلے نہ کرے تو اس کا روزہ کامل نہیں ہوتا۔ (ترمذی، ابوداؤد ، نسائی، ابن ماجہ، دارمی ، اور امام ابوداؤد فرماتے ہیں معمر ، زبیدی ابن عیینہ اور یونس ایلی ان تمام نے اس روایت کو زہری سے نقل کیا ہے اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر موقوف کیا ہے یعنی اس حدیث کو حضرت حفصہ رضی اللہ عناہ کا قول کہا ہے۔

تشریح
اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر روزہ کی نیت رات ہی سے نہ کی جائے تو روزہ درست نہیں ہوتا خواہ روزہ فرض ہو یا واجب ہو یا نفل۔ لیکن اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہی مسلک ہے کہ روزہ میں نیت رات ہی سے کرنی شرط ہے خواہ روزہ کسی نوعیت کا ہو، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا بھی یہی قول ہے لیکن نفل کے معاملے میں ان دونوں کے یہاں اتنا فرق ہے کہ اگر روزہ نفل ہو تو امام احمد کے ہاں زوال سے پہلے بھی نیت کی جا سکتی ہے اور امام شافعی کے نزدیک آفتاب غروب ہونے سے پہلے تک بھی نیت کر لینی جائز ہے۔ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ رمضان نفل اور نذر معین کے روزہ میں آدھے دن شرعی یعنی زوال آفتاب سے پہلے پہلے نیت کر لینی جائز ہے لیکن قضاء کفارہ اور نذر مطلق میں حنفیہ کے یہاں بھی رات ہی سے نیت کرنی شرط ہے ان تمام حضرات کی دلیلیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں