مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن کا بیان ۔ حدیث 632

قیامت کے دن قرآن کریم کی سفارش

راوی:

عن أبي أمامة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " اقرءوا القرآن فإنه يأتي يوم القيامة شفيعا لأصحابه اقرءوا الزهراوين البقرة وسورة آل عمران فإنهما تأتيان يوم القيامة كأنهما غمامتان أو كأنهما غيايتان أو فرقان من طير صواف تحاجان عن أصحابهما اقرءوا سورة البقرة فإن أخذها بركة وتركها حسرة ولا تستطيعها البطلة " . رواه مسلم

حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن کریم پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا اور (خاص طور پر) جگمگاتی ہوئی دو سورتیں کہ وہ سورت بقرہ اور سورت آل عمران ہیں پڑھو کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح ظاہر ہوں گی گویا کہ وہ ابر کی دو ٹکڑیاں ہیں یا دو سایہ کرنے والی چیزیں ہیں یا پرندوں کی صف باندھے ہوئے دو ٹکڑیاں ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف جھگڑیں گے اور سورت بقرہ پڑھو کیونکہ اس کے پڑھنے پر مداومت اس کے مفہوم و معانی میں غور و فکر اور اس کے حکم پر عمل کرنا برکت (نفع عظیم ہے اور اس کو ترک کرنا قیامت کے دن حسرت یعنی ندامت کا باعث ہو گا اور یاد رکھو کہ سورت بقرہ کے طویل ہونے کی وجہ سے اس کے پڑھنے کی طاقت وہی لوگ نہیں رکھتے جو اہل باطل اور کسلمند ہوتے ہیں۔ (مسلم)

تشریح
قرآن کریم پڑھا کرو، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مفہوم و معانی میں غور و فکر کرنے کو نعمت اور اپنے حق میں باعث سعادت جانو اور اس کے پڑھنے پر مداومت اختیار کرو۔
سورت بقرہ اور سورت آل عمران کو جگمگاتی ہوئی سورتیں فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ دونوں سورتیں نور و ہدایت اور ثواب کی زیادتی کی وجہ سے روشن ہیں گویا اللہ رب العزت کے نزدیک ان دونوں سورتوں میں اور بقیہ تمام سورتوں میں چاند اور ستاروں کی نسبت ہے کہ یہ سورتیں تو بمنزلہ چاند کے ہیں بنسبت تمام سورتوں کے وہ بمنزلہ تمام ستاروں کے ہیں۔
قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے حق میں ان سورتوں کی برکات کو متشکل طور پر ظاہر ہونے کو تین صورتوں میں بیان کیا گیا ہے پہلی صورت تو یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ سورتیں قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے گویا ابر کی دو ٹکڑیاں ہوں گی۔ جو میدان حشر میں کھڑے ہوئے ان پر آفتاب کی تمازت اور گرمی سے بچاؤ کے سایہ کریں گی ، دوسری صورت یہ بیان کی گئی ہے کہ یا وہ سایہ کرنے والی دو چیزیں ہوں گی یعنی خواہ وہ ابر کی صورت میں ہوں یا کسی اور شکل میں مفہوم اس کا بھی یہی ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والوں پر سایہ فگن ہوں گے فرق صرف اتنا ہے کہ اس صورت میں ان سایہ دار چیزوں کا دل پہلی صورت کی بہ نسبت کم ہو گا اور وہ اپنے پڑھنے والوں کے سر سے بالکل قریب ہوں گی جیسا کہ امراء و سلاطین کے سروں پر چھتری وغیر کا سایہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس صورت میں ان کے سروں پر سایہ بھی ہو گا اور روشنی بھی ہو گی۔
تیسری صورت یہ بتائی گئی ہے کہ یا وہ پرندوں کی صف باندھے ہوئے دو ٹکڑیاں ہو گی جن کا سایہ بھی ہو گا اور جو اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے اس بات کی وکالت و سفارش کریں گی کہ انہیں آخرت کی تمام ابدی سعادتوں سے نوازا جائے۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ کان ہما غمامتان او غیایتان او فرقان من مطیر صواف میں حرف او تنویع (اظہار اقسام) کے لئے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تین صورتیں بیک وقت ہوں گی جن کا تعلق اپنے پڑھنے والوں کے حال کی مناسبت سے ہو گا لہٰذا اول یعنی ابر کی صورت کا تعلق اس شخص سے ہو گا جس نے یہ سورتیں پڑھیں مگر ان کے مفہوم و معانی کو نہ سمجھا دوم یعنی سایہ کی چیز کا تعلق اس شخص سے ہو گا جس نے ان سورتوں کو پڑھا بھی اور ان کے معنی بھی سمجھے اور دوسروں کو ان سورتوں کی تعلیم بھی دی۔

یہ حدیث شیئر کریں