مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن کا بیان ۔ حدیث 633

قیامت کے دن قرآن کریم کی سفارش

راوی:

وعن النواس بن سمعان قال : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " يؤتى بالقرآن يوم القيامة وأهله الذين كانوا يعملون به تقدمه سورة البقرة وآل عمران كأنهما غمامتان أو ظلتان سوداوان بينهما شرق أو كأنهما فرقان من طير صواف تحاجان عن صاحبهما " . رواه مسلم

حضرت نو اس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن لایا جائے گا قرآن کو اور ان لوگوں کو جو قرآن پڑھتے تھے اور ان پر عمل کرتے تھے سارے قرآن کے آگے دو سورتیں سورت بقرہ اور سوہ آل عمران ہوں گی، اس طرح گویا کہ وہ ابر کے دو ٹکڑے ہیں یا ابر کے دو سیاہ ٹکڑے ہیں اور ان میں ایک چمک ہے یا گویا دو ٹکڑیاں صف بستہ پرندوں کی ہیں جو پڑھنے والوں کی طرف جھگڑیں گی (یعنی اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کریں گی) (مسلم)

تشریح
یوتی بالقرآن (لایا جائے گا قرآن کو) کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن یا تو قرآن ہی کو صورت و شکل دے کر میدان حشر میں لایا جائے گا یا اس کا ثواب لایا جائے گا۔
کانوا یعملون بہ (اور اس پر عمل کرتے تھے) سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو شخص قرآن تو پڑھتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ اہل قرآن میں سے نہیں ہے اور نہ ہی قرآن کریم ایسے شخص کی شفاعت و سفارش کرے گا بلکہ ایسے شخص کے حق میں قرآن خسران کا باعث ہو گا ۔ تقدمہ الخ، کا مطلب یہ ہے کہ سورت بقرہ اور سورت آل عمران کا ثواب سارے قرآن کے ثواب کے آگے ہو گا بعض حضرات فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میدان حشر میں سارے قرآن کو ظاہر صورت شکل دی جائے گی جسے تمام لوگ دیکھیں گے جیسا کہ میدان میں تولنے کے لئے اور تمام اعمال کو صورت دی جائے گی۔
ظلتان سوداوان (ابر کے دو سیاہ ٹکڑے ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ دل دار اور تہ بتہ ہونے کی وجہ سے وہ ٹکڑے سیاہ ہوں گے ایسے ابر کا سایہ بہت فرحت بخش اور باعث سکون ہوتا ہے۔
بینہما شرق (اور ان میں ایک چمک ہے) سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اگرچہ ابر کے وہ ٹکڑے بہت زیادہ دلدار ہوں گے مگر اس کے باوجود وہ روشنی سے مانع نہیں ہوں گے اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں شرق کے معنی ہیں درز (یعنی دراڑ) جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں کے درمیان جو ابر کی دو ٹکڑیوں کی صورت میں ہوں گی بسملہ کے ذریعہ فرقہ ہو گا تاکہ دونوں سورتوں میں امتیاز رہے۔

یہ حدیث شیئر کریں