مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ استغفار وتوبہ کا بیان ۔ حدیث 871

استغفار کی فضیلت اور اس کا اثر

راوی:

وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من لزم الاستغفار جعل الله له من كل ضيق مخرجا ومن كل هم فرجا ورزقه من حيث لا يحتسب " . رواه أحمد وأبو داود وابن ماجه

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو استغفار کو اپنے اوپر لازم قرار دے لیتا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ نکال دیتا ہے ۔ اور اسے ہر رنج وغم سے نجات دیتا ہے نیز اس کو ایسی جگہ سے پاک وحلال روزی بہم پہنچاتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ (احمد، ابوداؤد ، ابن ماجہ)

تشریح
استغفار کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا ۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی گناہ سرزد ہو جائے یا کوئی آفت ومصیبت اور رنج وغم ظاہر ہو تو استغفار کرے! یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ استغفار پر مداومت وہمیشگی اختیار کرے کیونکہ زندگی کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں انسان استغفار کا محتاج نہ ہو اس لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے ۔ طوبی لمن وجد فی صحیفتہ استغفارا کثیرا۔ خوش بختی ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت پائی۔
حدیث میں مذکورہ بالا فضیلت کی بنیاد یہ ہے کہ جو شخص استغفار کو اپنے اوپر لازم قرار دے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کے قلب کا تعلق اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس کا اعتماد مستحکم وقوی ہوتا ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں اس کا شمار اللہ سے ڈرنے والوں اور اللہ کی ذات پر اعتماد کرنے والوں میں ہوتا ہے جن کے بارہ میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے جو مذکورہ بالا حدیث کی بنیاد بھی ہے کہ ۔ آیت ( ڛ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّه مَخْرَجًا Ą وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُه ) 65۔ الطلاق : 3-2)۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی بہم پہنچاتا ہے جہاں اس کو گمان بھی نہیں ہوتا اور جو شخص اللہ پر اعتماد کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔
استغفار کی فضیلت اور اس کا فائدہ مند ہونا اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ آیت (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ اِنَّه كَانَ غَفَّارًا 10 يُّرْسِلِ السَّمَا ءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا 11 وَّيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّيَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا 12 ) 71۔ النوح : 12-11-10)۔ پس میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش مانگو کیونکہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے وہ تم پر بکثرت بارش برسائے گا اور تمہیں مال اور اولاد دے گا اور تمہارے لئے باغ بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔
حضرت حسن بصری کے بارہ میں منقول ہے کہ ایک شخص نے ان سے قحط سالی کی شکایت کی تو انہوں نے اس سے کہا کہ اللہ سے استغفار کرو، پھر ایک اور شخص نے محتاجگی کا شکوہ کیا، اور ایک اور نے اولاد نہ ہونے کی ، اور ایک اور نے زمین کی پیداوار میں کمی کی شکایت کی انہوں نے سب ہی سے کہا کہ استغفار کرو لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس کئی شخص آئے اور سب نے اپنی الگ الگ پریشانی ظاہر کی۔ مگر آپ نے سب ہی کو استغفار کرنے کا حکم دیا اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے اس کے جواب میں مذکورہ بالا آیت۔(فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ اِنَّه كَانَ غَفَّارًا) 71۔ نوح : 10) پڑھی اور اس طرح انہیں بتایا کہ میں نے جن جن باتوں کے لئے استغفار کا حکم دیا ہے اس آیت سے وہ سب ثابت ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں