مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 90

موت کے وقت رحمت خداوندی کی امید

راوی:

وعن عبيد الله بن خالد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " موت الفجاءة أخذة الأسف " . رواه أبو داود وزاد البيهقي في شعب الإيمان ورزين في كتابه : " أخذة الأسف للكافر ورحمة للمؤمن "

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جوان کے پاس تشریف لے گئے جو سکرات الموت میں مبتلا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ " تم اپنے آپ کو کس حال میں پاتے ہو؟ (یعنی اس وقت آیا تمہارا دل رحمت الٰہی کی امید سے بھر پور ہے یا غضب الٰہی سے ہراساں وترساں؟ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں (یعنی اپنے آپ کو رحمت الٰہی کا امید وار پاتا ہوں) لیکن اس کے باوجود اپنے گناہوں سے خوف زدہ (بھی) ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جب ایسے وقت میں بندہ کے دل میں خوف و امید (دونوں) جمع ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عنایت فرماتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے (یعنی اپنی رحمت) اور اسے اس چیز سے (یعنی عذاب سے) امن میں رکھتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے" (ترمذی ، ابن ماجہ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
" ایسے وقت " سے مراد یا تو خاص طور پر سکرات الموت کا وقت ہے یا پھر ایسے اوقات بھی مراد ہیں جو سکرات الموت کے وقت کی طرح ہوتے ہیں جن میں انسان حکما بالکل موت کے کنارے پر ہوتا ہے جیسے لڑائی کا وقت یا قصاص کا وقت یا اسی قسم کے دوسرے اوقات۔

یہ حدیث شیئر کریں