مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 91

نیک اعمال میں زیادتی کے لئے درازی عمر باعث سعادت ہے

راوی:

وعن أنس قال : دخل النبي على شاب وهو في الموت فقال : " كيف تجدك ؟ " قال : أرجوالله يا رسول الله وإني أخاف ذنوبي فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا يجتمعان في قلب عبد في مثل هذا الموطن إلا أعطاه الله ما يرجو وآمنه مما يخاف " . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي هذا حديث غريب

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ جان کنی کا خوف سخت ہے، بیشک یہ نیک بختی ہے کہ بندہ کی عمر دراز ہو اور اللہ تعالیٰ اسے طاعات کی طرف پھیر دے" (احمد)

تشریح
مطلع اس بلند جگہ کو کہتے ہیں جس پر چرھ کر کسی چیز کو دیکھتے ہیں یہاں حدیث کے الفاظ میں " مطلع" سے مراد سکرات الموت اور اس کی سختی ہے کہ پہلے انسان اس میں گرفتار ہوتا ہے پھر مرتا ہے۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ موت کی آرزو میں کوئی فائدہ اور نیک بختی نہیں ہے، جو شخص موت کی آرزو کرتا ہے وہ غم و آلام کی سختی دل شکستگی اور صبر و عزم کی کمی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے لہٰذا مرتے وقت اس کا غم اور اس کی دل شکستگی و مایوسی اور زیادہ ہو گی اور ایسے میں غضب الٰہی کا مستحق بھی ہو گا اس لئے موت کی آرزو سے کیا فائدہ؟ اس سے معلوم ہوا کہ بے صبری اور دل شکستگی و مایوسی کی وجہ سے موت کی آرزو ممنوع ہے ہاں دیدار الٰہی کے اشتیاق و شوق اور عالم آخرت کی محبت کی وجہ سے موت کی آرزو جائز ہے۔
حدیث کے الفاظ ان من السعادۃ سے آرزوئے موت کی ممانعت کی دوسری علت یہ بیان فرمائی جا رہی ہے کہ موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ موت تو خود ایک نہ ایک دن آنے ہی والی ہے، دنیا کی اس چند روزہ زندگی کو غنیمت جانو اور اس زندگی میں آخرت کے لئے جو کچھ توشہ تیار کر سکتے ہو کر لو، یعنی نیک اعمال کئے جاؤ تاکہ جب موت آ ہی جائے اور تم اس دنیا سے دارالبقاء کو سدھارو تو تمہارا دامن نیک و صالح اعمال کی سعادت سے بھرپور ہو۔ الدنیا مزرع الآخرۃ یعنی یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، یہاں نیک اعمال کرو گے تو وہاں کام آئیں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں