مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ افلاس اور مہلت دینے کا بیان ۔ حدیث 132

اللہ تعالیٰ حقوق العباد معاف نہیں کرتا

راوی:

وعن أبي قتادة قال : قال رجل : يا رسول الله أرأيت إن قتلت في سبيل الله صابرا محتسبا مقبلا غير مدبر يكفر الله عني خطاياي ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نعم " . فلما أدبر ناداه فقال : " نعم إلا الدين كذلك قال جبريل " . رواه مسلم

اور حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں اس حال میں کہ میں صبر کرنیوالا اور ثواب کا خواہش مند ہوں (یعنی میں دکھانے سنانے کی غرض سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کی خاطر اور ثواب کی طلب میں جہاد کروں) اور اس طرح جہاد کروں کہ میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤں بلکہ ان کے سامنے سینہ سپر رہوں (یہاں تک کہ میں لڑتے لڑتے مارا جاؤں) تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کر دے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر جب وہ شخص اپنے سوال کا جواب پا کر واپس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آواز دی اور فرمایا کہ ہاں اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ یقینًا معاف کر دے گا مگر قرض کو معاف نہیں کرے گا مجھ سے جبرائیل نے یہی کہا ہے (مسلم)

تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حقوق العباد کا معاملہ بڑا سخت اور کٹھن ہے اللہ تعالیٰ اپنے حقوق یعنی عبادات وطاعات میں کوتاہی اور گناہ ومعصیت کو معاف کر دیتا ہے مگر بندوں کے حقوق یعنی قرض وغیرہ کو معاف نہیں کرتا نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ تعالیٰ کا صرف وہی پیغام نہیں پہنچاتے تھے جو قرآن کریم کی شکل میں ہمارے سامنے ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی دیگرہدایات واحکام پہنچاتے رہتے تھے۔
١٤) اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہید کے تمام (صغیرہ اور کبیرہ) گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں مگر دین یعنی حقوق کی معافی نہیں ہوتی (مسلم)

تشریح :
دین سے مراد حقوق العباد ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر بندہ کا کوئی حق ہو یعنی خواہ اس کے ذمہ کسی کا مال ہو یا اس نے کسی کا ناحق خون کیا ہو یا کسی کی آبروریزی کی ہو یا کسی کو برا کہا ہو یا کسی کی غیبت کی ہو تو اگر وہ شخص شہید بھی ہو جائے تب بھی یہ چیزیں معاف نہیں کی جائیں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے حقوق کسی حال میں معاف نہیں کرتا ۔
لیکن ابن مالک کہتے ہیں کہ بعض علماء کا یہ قول ہے کہ اس حدیث کا تعلق شہداء بر" یعنی بری جنگ میں شہید ہونیوالوں سے ہے بحری جنگ میں شہید ہونیوالے اس سے مستثنی ہیں کیونکہ ابن ماجہ نے ابوامامہ کی یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بحری جنگ میں شہید ہونیوالوں کے تمام گناہ حتی کہ دین (یعنی حقوق العباد) بھی بخشے جاتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں