مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ افلاس اور مہلت دینے کا بیان ۔ حدیث 133

قرض دار کی نماز جنازہ پڑھنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتناب

راوی:

وعن أبي هريرة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يؤتي بالرجل المتوفى عليه الدين فيسأل : " هل ترك لدينه قضاء ؟ " فإن حدث أنه ترك وفاء صلى وإلا قال للمسلمين : " صلوا على صاحبكم " . فلما فتح الله عليه الفتوح قام فقال : " أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم فمن توفي من المؤمنين فترك دينا فعلي قضاؤه ومن ترك فهو لورثته "

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پوچھتے کہ کیا یہ شخص اپنا قرض ادا کرنے کے لئے کچھ مال چھوڑ کر مرا ہے؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ یہ شخص اتنا مال چھوڑ کر مرا ہے جس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جناہ پڑھ لیتے اور اگر یہ معلوم ہوتا کہ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں مرا ہے تو پھر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ خود نہ پڑھتے بلکہ) مسلمانوں سے فرماتے کہ تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دئیے اور مشرکین وکفار سے جنگ کے بعد غنیمت کی صورت میں مال و زر میں وسعت و کشادگی نصیب ہوئی ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین ودنیا کے تمام امور میں مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں لہذا جو مسلمان اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض ہو ( اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو سکے) تو اس کے قرض کو ادا کرنے میں، میں ذمہ دار ہوں اور جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو اس مال سے اس کا قرض ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے (بخاری ومسلم)

تشریح :
میں (دین ودنیا کے تمام امور میں) مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ومحبوب رکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو اپنے نفس کے حکم اور اپنے نفس کی خواہش پر مقدم رکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کو اپنی جانوں کے حق سے مقدم جانیں اور ان کے قلوب اپنی جانوں کی شفقت ومحبت سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ومحبت سے لبریز ہوں اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت بھی یہی ہے کہ ایک مسلمان اپنی ذات پر جتنا شفیق ومہربان ہو سکتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے حق میں اس سے کہیں زیادہ شفیق ومہربان ہیں ایک مسلمان کی جان اس کی عزت وآبرو اور اس کا دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جتنا زیادہ عزیز ومحبوب ہے اتنا خود اس کو نہیں ہے چنانچہ مسلمانوں پر یہ مال و زبر کے دروازے کھول دیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہرگز گوارا نہیں ہوا کہ اس مال و زر کو صرف اپنی ہی ذات تک محدود رکھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تو سختی وتنگدستی کی سابقہ حالت پر ہی قناعت کی اور سارا مال و زر مسلمانوں ہی کے لئے وقف کر دیا ۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اب جب کہ اللہ نے مال و زر کے خزانے میرے تصرف میں دے دئیے ہیں تو میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ مسلمانوں کا مال وعزت و آبرو کا تحفظ کروں لہذا مسلمانوں کے قرض کی ادائیگی کے بقدر مال نہیں چھوڑ گیا ہے تو اس کا قرض میں ادا کروں گا۔
بعض حضرات تو یہ فرماتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کے قرض کی ادائیگی بیت المال سے فرمایا کرتے تھے اور یہی بات زیادہ قرین قیاس ہے لیکن بعض علماء کا قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا قرض اپنے مال میں سے ادا کرتے تھے۔
اسی طرح بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ مردوں کی طرف سے قرض کی ادائیگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ ان کا قرض ادا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبرعًا یعنی ازراہ احسان وشفقت ان کے قرض کی ادائیگی کرتے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں