مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ افلاس اور مہلت دینے کا بیان ۔ حدیث 136

قرض دار کی روح قرض کی ادائیگی تک معلق رہتی ہے

راوی:

وعن البراء بن عازب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " صاحب الدين مأسور بدينه يشكو إلى ربه الوحدة يوم القيامة " . رواه في شرح السنة

اور حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرض دار اپنے قرض کی وجہ سے محبوس کر دیا جائے گا ( یعنی جنت میں داخل ہونے اور بندگان صالح کی صحبت میں پہنچنے سے روک دیا جائے گا ) چنانچہ وہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے اپنی تنہائی کی شکایت کرے گا (شرح السنۃ)
منقول ہے کہ حضرت معاذ بن جبل قرض لیا کرتے تھے ایک مرتبہ ان کے قرض خواہ اپنے قرض کی وصولی کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ کا سارا مال واسباب ان کے قرض کی ادائیگی کے لئے بیچ ڈالا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاذ مفلس ہوگئے یہ حدیث مرسل ہے اور یہ الفاظ مصابیح کے نقل کردہ ہیں مشکوۃ کے مؤلف کہتے ہیں کہ ) مجھے یہ روایت اصول یعنی صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں ملی ہے البتہ یہ روایت منتقی میں ملی ہے اور وہ بھی اس طرح ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن مالک کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل ایک سخی جوان تھا اور اپنی سخاوت کی وجہ سے کوئی مال واسباب اپنے پاس نہیں رکھتے تھے ( کیونکہ ان کے پاس جو کچھ بھی ہوتا تھا وہ سب دوسروں کو دیدیا کرتے تھے) اسی وجہ سے وہ ہمیشہ قرض لیتے رہتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اپنا مال واسباب قرض کی نذر کر دیا ۔ پھر وہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات کی خواہش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قرض خواہوں سے سفارش کر دیں کہ وہ سارا قرض یا قرض کا کچھ حصہ معاف کر دیں) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قرض خواہوں سے اس سلسلے میں گفتگو کی مگر انہوں نے کچھ بھی معاف نہیں کیا اور اگر وہ کسی کا قرض معاف کر سکتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے معاذ کا قرض ضرور معاف کر دیتے ( لہذا جب انہوں نے معاف کرنے سے صاف انکار کر دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قرض خواہوں کے مطالبات پورے کرنے کے لئے معاذ کا سارا مال واسباب بیچ دیا یہاں تک کہ اس کی وجہ سے معاذ مفلس ہو گئے سعید نے اس روایت کو اپنی سنن میں بطریق ارسال نقل کیا ہے ( شرح السنۃ)

تشریح :
اپنے پروردگار سے اپنی تنہائی کی شکایت کرے گا کا مطلب یہ ہے کہ جب اس شخص کو نہ تو جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی اور نہ نیک بخت لوگوں کی صحبت میں اسے جانے دیا جائے گا اور اس طرح جب وہ یہ دیکھے گا کہ تمام ہی نیک بخت لوگ تو جنت میں جا رہے ہیں اور میں ایسا بدبخت ہوں کہ ان کی رفاقت و صحبت کی سعادت سے بھی محروم ہوں نیز اسے کوئی ایسا سفارشی بھی نظر نہیں آئیگا جو اسے اس قید تنہائی سے نجات دلائے تو وہ اپنی تنہائی اور اس قید کی وحشت سے مضطرب ہو کر بارگاہ الٰہی میں شکوہ کرے گا چنانچہ جب تک وہ قرض کی وجہ سے چھٹکارا نہ پا جائے گا بایں طور کہ یا تو وہ اس قرض کے عوض میں اپنی نیکیاں قرض خواہوں کو دے دے یا قرض خواہوں کے گناہوں کو ان کے قرض کے عوض اپنے اوپر لاد لے یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کے قرض خواہوں کو راضی کر دے اور وہ اپنا حق معاف کر دیں اس وقت تک وہ اسی تنہائی میں رہے گا گویا یہ تنہائی بھی اس کے لئے ایک عذاب کے درجے کی چیز ہو گی جس سے وہ سخت رنج واذیت محسوس کریگا۔
ایک روایت میں یوں منقول ہے کہ قرض دار اپنے قرض کی وجہ سے اپنی قبر میں قید کیا جائے گا اور پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی قید تنہائی کا شکوہ کریگا۔
اصول ان کتابوں کو کہتے ہیں جن میں حدیثیں سند کے ساتھ نقل کی گئی ہیں منتقی ابن تیمی کی ایک کتاب کا نام ہے لہذا مشکوۃ کے مؤلف روایت کے الفاظ لم اجد الخ کے ذریعے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مصابیح کے مصنف نے یہ روایت وروی ان معاذا کان الخ جن الفاظ میں نقل کی ہے ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت مجھے اصول کی کتابوں میں نہیں ملی ہے بلکہ یہ روایت منتقی میں منقول ہے اور وہ بھی ان الفاظ میں وعن عبدالرحمن الخ۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ منتقی کے ہیں اور ان کو یہاں مؤلف مشکوۃ نے اس لئے نقل کیا ہے تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ حدیث اگرچہ اصول کی ان کتابوں میں نہیں ہے جنہیں مؤلف نے دیکھا ہے لیکن منتقی میں موجود ہے لہذا یہ روایت اگر اصول کی کتابوں میں نہ ہوتی تو صاحب منتقی اس کو اپنی کتاب میں نقل نہ کرتے

یہ حدیث شیئر کریں